ٹیم راجناتھ کی پہلی چنوتی کرناٹک اسمبلی چناؤ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے صدر راجناتھ سنگھ اور ان کی نو تشکیل ٹیم کے لئے سب سے پہلا چیلنج کرناٹک اسمبلی چناؤ ہے جو5 مئی کو ہونے والے ہیں۔ ان اسمبلی چناؤ میں 110 سیٹیں جیت کر ریاست میں پہلی بار یا یوں کہیں جنوبی ہندوستان میں بھاجپا کی سرکار بنانے میں کامیاب رہی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنا آسان نہیں دکھائی پڑتا۔ اسمبلی چناؤ کئی اسباب سے اور قومی اہمیت رکھتے ہیں۔سب سے پہلے تو یہ 2014ء کے عام چناؤ سے پہلے ہورہا ہے۔ اس کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ خاص کر اس لئے بھی کیونکہ اس چناؤ میں نہ صرف دونوں بڑی پارٹیوں کانگریس۔ بی جے پی آمنے سامنے ہیں بلکہ ممکنہ تیسرے مورچے (دیوگوڑا ، یدیرپا) جیسے بڑے لیڈر میدان میں ہیں۔ اس کے علاوہ چناؤ سے یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ دیش کے سامنے جو کرپشن اور دیگر برننگ اشو ہیں ان پر ووٹروں کا کیا ردعمل ہے۔ بھاجپا کے لئے یہ چناؤ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ وہ جنوبی ہندوستان میں اپنے اثر کو بچائے رکھ سکتی ہے یا نہیں اور ساتھ ہی اپنی ٹیم اور چناوی چہروں کی وجہ سے ان کو فائدہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ بھاجپا کے مرکزی لیڈر مان رہے ہیں کہ پچھلی بار کی طرح 110 سیٹیں جیتنا اس بار مشکل ہیں۔ بغیر کسی بڑے تنازعے کے اپنی ٹیم کو بنانے میں کامیاب راجناتھ سنگھ کی ٹیم کے لئے یہ چنوتی بڑی مشکل ہونے جارہی ہے۔ نئی ٹیم کی تشکیل کے بعد سب سے پہلے چنوتی کرناٹک کی آئی ہے۔ یہاں زبردست چناوی دنگل ہورہا ہے۔ بی جے پی کے لئے کانگریس ہی نہیں بلکہ پارٹی سے نکالے باغی نیتا یدی یروپا بھی چنوتی پیش کرنے جارہے ہیں۔ ساؤتھ انڈیا میں کرناٹک ایک ایسی پہلی ریاست ہے جہاں بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلی بار حالانکہ کانگریس کے مقابلے بی جے پی کو تقریباً 1 فیصدی ووٹ ملے تھے لیکن اس کے باوجود بی جے پی نے 110 سیٹیں جیتیں اور وہ سرکار بنانے میں کامیاب رہی۔ یدی یروپا کے جانے کے بعد پارٹی خود ہی یہ بھروسہ نہیں کر پا رہی ہے کہ وہ کرناٹک میں مسلسل دوسری سرکار بنانے میں کامیاب ہوگی۔ یدی یروپا کے جانے سے پارٹی کو بھاری نقصان ہونا طے لگتا ہے۔ اس کے پاس کرناٹک میں کئی ایسے لیڈر ہیں جو نہ صرف چناؤ میں ورکروں کی کامیاب رہنمائی کرسکتے ہیں بلکہ پارٹی کو جیت بھی دلا سکتے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی نیتا و نائب صدر سدانند گوڑا بھی مان رہے ہیں کہ پارٹی کو اس بار ریاست میں پھر کامیابی ملے گی۔ کرناٹک اسمبلی چناؤ کے لئے بی جے پی نے اندرونی سطح پر جو سروے کروایا ہے اس کے مطابق پارٹی 224 اسمبلی سیٹوں میں سے محض80 سیٹوں پر ہی خود کو مضبوط مان رہی ہے لہٰذا بی جے پی نے 80 سیٹوں کو اپنے ذہن میں رکھا ہوا ہے۔ بھاجپا کے مرکزی لیڈر مان رہے ہیں اگر اتنی سیٹیں پارٹی نے جیت لیں تو جوڑ توڑ کر سرکار بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ بھاجپا نے تقریباً50 سیٹیں بی زمرے میں رکھی ہیں جن میں کانٹے کا مقابلہ ہے اور یہ کسی بھی طرف جا سکتی ہیں۔ ٹیم راجناتھ کے لئے پہلا چیلنج کرناٹک میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلانا ہے۔ یہ نریندر مودی کی مقبولیت کا اتناسوال نہیں جتنا راجناتھ سنگھ کی ساکھ کا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟