بھاگ پرویز مشرف بھاگ: پاکستان کی بڑھتی تشویشات

پاکستان میں پہلی بار غیر فوجی حکومت نے اپنی میعاد پوری کی اور اب دوسری سرکار کا انتخاب کرنے کے لئے عام چناؤ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ زیادہ تر وقت فوجی حکومت وہ بھی تاناشاہی کے تحت رہے ملک کے لئے یہ ایک چھوٹا کارنامہ ہی نہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اپنے آپ میں ایک اچھا واقعہ ہے۔ اس کا سہرہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی چھایا سے نکل کر وہ ایک اچھے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ’سام دام ڈنڈ بھید‘ کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے دیگر سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو ساتھ ملانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن عام چناؤ سے پہلے سابق صدر پرویزمشرف کے پاکستان لوٹنے سے ملک میں ایک نئی صورتحال بنتی جارہی ہے۔ پرویز مشرف کے لوٹنے پر فوج کے علاوہ سبھی لوگ مخالف تھے لیکن لگتا ہے کہ فوج اور مشرف میں کوئی خفیہ سجھوتہ ہوچکا ہے۔ فوج کو چھوڑ کر پاکستان میں سبھی سرکاری ایجنسیاں خاص کر عدالتیں ان کے خلاف ہیں۔ آج کی تاریخ میں جنرل پرویز مشرف شاید پاکستان کے سب سے دکھی شخص ہوں گے کہ عام چناؤ کے لئے چار حلقوں سے پرچے داخل کئے اور چاروں جگہ سے خارج ہوگئے۔ الگ الگ مقامات پر الگ الگ اسباب پیش کئے گئے۔ کہیں ان کے دستخط نہیں ملے تو کہیں دلیل دی گئی وہ بے نظیربھٹو اور بلوچ نیتا اکبر بکتی کے قتل کے واقعات سمیت چار معاملوں میں ملزم ہیں۔ پاکستان بچانے کا نعرہ دیکر دیش لوٹے مشرف اس وقت اپنے فارم ہاؤس میں نظر بند ہیں۔ ہائی کورٹ نے 2007 ء میں ایمرجنسی لگانے ، چیف جسٹس کو برخاست کرنے اور60 ججوں کو نظربند کرنے کے ایک معاملے میں مشرف کی ضمانت خارج کر انہیں گرفتار کرنے کے احکامات دئے تو ان کو سنتے ہی فلمی انداز میں جنرل پرویز مشرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت عرضی خارج ہوتے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ عدالت سے اپنے فوجی سکیورٹی کوج میں ہائی کورٹ سے نکل کر اپنے قلعہ نما فارم ہاؤس میں جا چھپے اور انہیں وہیں نظربند کردیا گیا۔ مشرف کے وکیل انہیں بچانے کے لئے سپریم کورٹ بھی پہنچے وہاں ان کی عرضی داخل نہ ہوپائی۔ پولیس نے ان کے فارم ہاؤس کی گھیرا بندی کررکھی ہے اور فرار مانے جارہے مشرف کی سکیورٹی میں لگے پاکستانی رینجر جوان واپس بلا لئے گئے۔ کہنے پڑے گا مشرف نے قانون کی تعمیل کرنے والے ایک ذمہ دار شہری اور ایک سابق صدر و ریٹائرڈ فوجی چیف کی طرح برتاؤ نہیں کیا۔ انہوں نے ایک بھگوڑے یا ایک ایسے شخص کی شکل میں رویہ اپنایا جو خود کو قانون سے اوپر سمجھتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے جنرل جہانگیر کرامت کو چھوڑ کر پاکستان کے سبھی فوجی چیف کو نہ صرف قانون سے اوپر بلکہ خود اپنے آپ کو قانون سمجھتے رہے ہیں۔ آج پاکستان سمیت ساری دنیا بڑی بے چینی سے دیکھ رہی ہے کہ اب موجودہ فوجی چیف جنرل پرویز کیانی عدلیہ اور نگراں سرکار کیا قدم اٹھاتے ہیں؟ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ مشرف پاکستان لوٹنے سے فوج پہلے ہی اپنے آپ کو تھوڑا سا لاچار محسوس کررہی تھی اور ان میں ان کے تئیں کوئی ہمدردی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ مشرف کو بیرون ملک میں ہی رہتے دیکھنا پسند کرتی ہے۔ فوج عدلیہ کو بھی پسند نہیں کرتی۔ تازہ واقعہ میں پاکستانی فوجی پاکستان کی عدالتیں آمنے سامنے آگئی ہیں کیونکہ مشرف کو جو سکیورٹی کوج دیا گیا ہے وہ فوج کے ذریعے ہی دیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج بنام پاکستانی پولیس کے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرنے میں مشرف کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ عام چناؤ سر پر ہیں اور اس واقعہ کا سیدھا اثر عام چناؤ پر پڑ سکتا ہے۔ ایک بار پھر پاکستان میں جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟