بلند شہر کے قانونی محافظ خود ہی قانون کے بھکشک بنے

اترپردیش میں بگڑتے لا اینڈ آرڈر کی ایک اور مثال سامنے آئی ہے۔ بلندشہر میں پولیس نے ایک نابالغ آبروریزی کا شکار کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی۔ یہ تشفی اور راحت کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے پولیس کے غیر انسانی برتاؤ کے اس واقعے کا خود ہی نوٹس لیا ہے۔ اس واردات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کا جواب سارا دیش جانناچاہتا ہے۔ آخر پولیس ایک10 سالہ بچی کو جیل میں کیسے ڈال سکتی ہے؟ غور طلب ہے کہ بلندشہر میں ایک 10 سالہ بچی کے ساتھ ایک دبنگ نے آبروریزی کی اور اس پر الٹے چوری کا الزام جڑدیا گیا۔ جب اس کی ماں اسے لیکر تھانے پہنچی تو پولیس نے ماں کو بھگادیا اور بچی کو ہی حوالات میں بند کردیا۔ اس نے اس کے ساتھ آبروریزی کے معاملے پر توجہ دینے بھی ضروری نہیں سمجھی۔ اس واقعہ کی میڈیا رپورٹ کے بنیاد پر سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا اور اترپردیش سرکار سے اس بارے میں جواب مانگا۔ اس کیس میں یہ سوال اور سنگین ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ اس تھانے میں ہوا ہے جس کا انچارج ایک خاتون تھی۔ کیا اس سے زیادہ غیر انسانی اور تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ آبروریزی کا شکار بچی کی مدد کرنے کے بجائے اسے جیل میں ہی ڈال دیا جائے؟ اگر مہلا تھانوں میں بھی ایسی حرکتیں ہوں گی تو سماج پولیس پر کیسے بھروسہ کرے گا؟ سپریم کورٹ نے جب یوپی سرکار سے جواب مانگا تو آناً فاناً میں ریاستی سرکار سرگرم ہوئی اور قصوروار پولیس والوں کو معطل کردیا۔ پولیس محکمے کی لاپرواہی اور بدعنوانی اور غیر حساسیت کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن اس واردات نے ثابت کردیا ہے کہ اسے قانون کی بنیادی سمجھ بھی نہیں ہے۔ آخر بلند شہر کے پولیس ملازمین نے اس لڑکی کو حوالات میں بند کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ قانون کی محافظ ہے یا بھکشک ہے؟ وہاں موجود پولیس ملازمین نے انہیں ملزمان سے کچھ پیسہ دلانے کا بھی لالچ دیا اور شکایت درج کرنے کو بھی کہا لیکن جب انہوں نے انکار کردیا تو انہیں گالیاں دی گئیں اور الٹے متاثرہ بچی کو حوالات میں بند کردیا۔ ایک ٹی وی چینل کے صحافی نے اس معاملے کو اجاگر نہ کیا ہوتا تو بچی اور اس کے گھر والوں کو کن کن اذیتوں کا سامنے کرنا پڑتا، اندازہ لگائیے۔ پولیس کا یہ رویہ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سے جن کمزور طبقوں کے لئے انصاف یقینی فراہم کرنے کی امید کی جاتی ہے وہ کس طرح سماجی طور سے رسوخ دار لوگوں کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اترپردیش میں دلتوں اور کمزور طبقات کے خلاف سماجی بد امنی بڑھتی جارہی ہے۔ اکھلیش یادو کی سرکار کو اسے روکنے کے لئے بلا تاخیر قدم اٹھانے ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟