سی بی آئی نہ تو کبھی آزاد تھی اور نہ ہی ہوگی

چلئے آج ہم بات کرتے ہیں سی بی آئی کی اس پر دباؤ کی اور اس کی کارگذاری کی۔ سی بی آئی نے اپنا شاندار آغاز 1941ء میں اسپیشل پولیس ادارے کی شکل میں کیا تھا۔ لیکن یہ مکمل وجود میں یکم اپریل 1963ء کو آئی تھی۔ آج یہ دیش کی سب سے اڈوانس تفتیش رساں ایجنسی ہے۔ سی بی آئی سبھی طرح کے معاملوں کو دیکھتی ہے اور معاملے صرف کرپشن تک محدود نہیں ہیں بلکہ اقتصادی اور سیاسی اور مجرمانہ معاملے بھی دیکھتی ہے۔جرائم کے کئی راون نما چہرے ہوتے ہیں اس لئے سی بی آئی نے مناسب اہلیت حاصل کرنے کے علاوہ اپنے ساتھ اوزاروں کو بھی شامل کیا ہے۔ آج کی تاریخ میں سی بی آئی کے پاس تقریباً8200 مقدمے ہیں۔ جن میں222 کیس 20 سال سے اور 1571 کیس 10-12 سال سے زیر تفتیش ہیں۔ اگر ہم سیاستدانوں کے بڑے معاملوں کی بات کریں تو حال میں مایاوتی،ملائم سنگھ یادو، جگموہن ریڈی، کنی موجھی، ایم کے اسٹالن، قابل غور ہیں۔ راجہ بھیا اور وی آئی پی ہیلی کاپٹر خرید گھوٹالے بھی ہیں جنہیں سی بی آئی دیکھ رہی ہے۔ سی بی آئی کے طریق�ۂ کار پر سب سے زیادہ سوال پچھلی دو تین دہائیوں سے اٹھ رہے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے ونت نارائن معاملے میں جس طرح سی بی آئی پر سوال اٹھائے تھے اور اس کو لیکر گائڈ لائنس جاری کی تھیں اس سے لگا تھا کہ اب سب ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا لیکن پھر حالات ویسے ہی رہے۔ سی بی آئی پر الزام ہے کہ وہ سرکار کے دباؤ میں کام کرتی ہے۔ یہ تقریباً نیتاؤں کے معاملے میں تو صاف دکھائی پڑتا ہے۔ لالو پرساد یادو ملائم سنگھ یادو، جگموہن ریڈی اور مایاوتی سمیت کئی لیڈروں کی جانچ کے طریقے کے بارے میں سی بی آئی کے رول پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔ ایک بھی معاملے میں سی بی آئی نے کورٹ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جس کی بنیاد پر ان لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاسکے۔ سی بی آئی کا اکثر موازنہ ہم امریکہ کی جانچ ایجنسی ایف بی آئی سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس اس طرح کی کوئی جانچ ایجنسی نہیں ہے۔ برطانیہ میں بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے لیکن یہ بھی مقامی پولیس کی طرح ہے۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری امریکہ کے صدر کرتے ہیں۔ڈائریکٹر 10 سال کے لئے مقرر ہوتا ہے اور وہاں کی عدلیہ کے تئیں جوابدہ ہوتا ہے اس کی تقرری کے لئے ایک اسکریننگ کمیٹی ہوتی ہے جو ممکنہ ڈائریکٹر کے انتخاب کی خانہ پوری کو طے کرتی ہے۔ یہ طریقہ بے حد شفاف اور بہت مشکل ہوتا ہے۔ جن لوک پال کے حق میں آواز اٹھانے والوں کی مانگ ہے کہ سی بی آئی کو اس کے دائرے میں لایا جائے لیکن مرکزی حکومت سمیت کئی یوپی اے اتحادی پارٹیاں اس کے خلاف ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ سی بی آئی ایک آزاد ایجنسی ہے اور یہ ایف بی آئی کی طرح آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ وہیں جن لوک پال کی حمایتی بھاجپا کی دلیل ہے کہ سی بی آئی کہنے کو تو آزاد ہے لیکن اسکی جوابدہی بھارت سرکار کے ماتحت نہ ہوکر لوک پال کے ماتحت ہونی چاہئے۔ گذشتہ 2 برسوں پہلے سی بی آئی پر کنٹرول کو لیکر انا گروپ و یوپی اے میں ٹکراؤ بنا ہوا تھا لیکن مرکزی سرکار نے اپنا لوک پال بل میں سی بی آئی کو آزاد رکھا ہے اور اسے لوک سبھا میں پاس کروالیا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ بل راجیہ سبھا میں گر گیا۔ تبھی سے یہ معاملہ ادھر میں لٹکا ہوا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سی بی آئی کے موجودہ سسٹم تضاد ہے ۔ ایک طرف تو اسے حکمراں سرکار کا پٹھو کہا جاتا ہے اور دوسرے لہجے میں اسے کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن تک کہہ دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کر متنازعہ اور اعلی سطحی مجرمانہ معاملوں میں جنتا کی طرف سے ہی نہیں بلکہ اسے سرکار کا پٹھو کہنے والے لیڈروں کی بھی پرزور مانگ ہوتی ہے کہ کیس سی بی آئی کے سپرد کردیا جائے۔ سی بی آئی کے 50 سال یعنی کسی بھی ایک زندگی کا آدھا پڑاؤ ہے لیکن آج بھی اس کی آزادی پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ سی بی آئی کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ایک بھی سفید پوش نیتا کی جانچ کو اس نے آخری انجام تک نہیں پہنچایا۔ سبھی جانچیں لٹکی ہوئی ہیں جبکہ مقدموں کو درج کئے ہوئے برسوں گذر چکے ہیں۔ ڈی ایم کے لیڈر اسٹالن اور اعلی گیری کے یہاں چھاپے نے تو صاف کردیا کہ سی بی آئی کا استعمال کب اور کیسے کیا جاتا ہے۔ سپا چیف ہو یا بسپا چیف دونوں کی گردن سی بی آئی کے پھندے میں پھنسی ہوئی ہے اور وہ بھی مانتے ہیں کہ اگر مرکزی سرکار سے الگ ہوئے تو سی بی آئی ان کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سی بی آئی کے طریقہ کار پر بڑا سوال اس کی تیار ہونے والی سالانہ رپورٹ ہے اس میں دعوی کیا گیا ہے ہر برس کی طرح ان کے یہاں درج معاملوں کو انہوں نے اپنے انجام تک پہنچایا ہے اور قصوروار لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا۔ لیکن یہ ہی دعوی جب سفید پوشوں کے خلاف درج معاملوں میں آتا ہے تو سی بی آئی کی سالانہ رپورٹ کی جانچ کا گراف زیرومیں چلا جاتا ہے۔ 2011ء میں سی بی آئی 47 فیصد معاملے اور2012 میں70 فیصد معاملوں میں چارج شیٹ داخل کر لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا ہے لیکن پچھلے 20 سالوں میں اس کا گراف کبھی بھی 70 کو پار نہیں کرسکا کیونکہ 30 فیصد معاملے سفید پوش لیڈروں سے جڑے ہوئے ہیں جن کو پورا کرنے کی منشا شاید اس کی نہیں ہے۔ یہ ہی 30 فیصد درج معاملے سی بی آئی کے طریق�ۂ کار پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جوگیندر سنگھ فرماتے ہیں سی بی آئی نہ تو کبھی آزاد تھی اور نہ ہی ہوگی کیونکہ دیش میں کوئی بھی سرکار نہیں چاہتی کہ سی بی آئی آزادانہ طور پر کام کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟