راجستھان اسپورٹس کونسل کاسنگھ یا جماعت سے تعلق ہے یا نہیں؟

راجستھان کھیل پریشد ان دنوں اپنے ایک فرمان کو لے کر سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے۔ اس نے راجستھان سرکار سے کھیل ایوارڈ پانے والے کھلاڑیوں سے ایک حلف نامہ مانگا ہے جس میں بتانے کو کہا گیا ہے کہ کیا ان کا تعلق آر ایس ایس یا جماعت اسلامی سے ہے یا نہیں؟ اس فرمان کو لیکر جمعہ اور سنیچر کو بھاری ہنگامہ ہوا اور ریاست میں کئی جگہ مظاہرے ہوئے۔ اصل میں ریاستی کھیل پریشد نے جمعہ کو سوا دو کروڑ روپے کی انعام رقم بانٹنے کے لئے کھلاڑیو ں کو بلا لیا۔ اس دوران اس نے ایک حلف نامہ بھرنے کو کہا جس میں صاف کرنا تھا کہ ان کا تعلق آر ایس ایس اور جماعت اسلامی سے تو نہیں ہے۔ اس کو لیکر کھلاڑیوں نے ہلکا پھلکا احتجاج درج کرایا لیکن آگے کی کارروائی جاری رہی۔ اس کی اطلاع جیسے ہی باہر نکلی تو احتجاج ہونا شروع ہوگیا۔ ریاست کے وزیر کھیل مانگی لال چورسیا کا کہنا ہے کہ یہ قاعدہ 1986 ء نافذ ہے ، سرکار اس کی تعمیل کررہی ہے لیکن راجستھان کھیل کونسل کے سابق صدر ایس ایم ماتھر نے اس طرح کے کسی قاعدے سے انکار کیا۔ اس اشو کو گرمانے کے بعد ریاستی حکومت اور کھیل کونسل کے بیانوں میں بھی فرق آگیا ہے۔ اس حلف نامے کی بابت پوچھے جانے پر کھیل کونسل کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ تو ریاستی حکومت کے احکامات کی تعمیل کررہی ہے۔ اس پورے معاملے میں اس کی طرف سے کسی طرح کی پہل نہیں کی گئی تھی لیکن حکومت نے اس طرح کے کسی حکم کے بارے میں بات سے صاف انکار کردیا ۔ سیکولرازم کتنی ابن الوقت ہوچکی ہے راجستھان کھیل کونسل کی اس مانگ سے پتہ چلتا ہے کہ اس پر بھی قطعی تعجب نہیں کہ سنگھ اور جماعت اسلامی کی طرف سے اعتراض جتائے جانے کے باوجود راجستھان کو کانگریس سرکار اپنے اس فیصلے کو صحیح ٹھہرانے میں اڑی ہوئی ہے جس کے تحت کھلاڑیوں سے 10 روپے کے اسٹامپ پیپر پر یہ لکھوایا گیا کہ وہ مذہبی یا ممنوع تنظیموں کے ممبر نہیں ہیں۔ اگر کانگریس چاہتی ہے کہ ہندوؤں کی سب سے بڑی تنظیم اور مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت سے تعلق رکھنا یا اس کا ممبر یا حمایتی ہونا کوئی جرم ہے یا سیکولرزم کے خلاف ہے تو پھر انہیں ممنوع کیوں نہیں قراردیا جاتا۔ اس سے بھی بہتر یہ ہوگا کہ کانگریس دھارمک سماجی مانی جانے والی ان تنظیموں کی کوئی فہرست جاری کردے اس کی نظر میں جو فرقہ وارانہ ہوں۔ سیکولرزم کے بہانے اغراز پر مبنی سیاست کو ثابت کرنے کا سلسلہ تو تبھی سے شروع ہوگیا تھا جب ایمرجنسی کے دوران آئین میں ترمیم کرکے اس کی تشریح میں سیکولرزم لفظ جوڑدیا گیاتھا۔ دیش کے آئین میں سیکولرزم جیسے لفظ کو شامل کرنے اور اس کی تشریح اس شکل میں کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی توہین سبھی مذاہب و پنتھوں و اپاسنا کے طریقوں کے تئیں غیر جانبداررہنا ہے۔ آج کانگریس نے یہ حالت بنا دی ہے کہ سیکولرزم اکثریتوں کی مخالفت میں اقلیتوں کی خوشامدی کے طریقے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیاں جب چاہتی ہیں تب سیکولرزم کی من چاہی تشریح لوگوں کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔ ان میں وہ سیاسی پارٹیاں شامل ہیں جن کا چنتن اور پالیسیاں فرقہ وارانہ ہیں۔ ہماری رائے میں راجستھان کھیل پریشد کا یہ فرمان پوری طرح ناجائز ہے جسے فوراً واپس لینے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!