سال سے 84 کے دنگے کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا

29 سال پرانے پل بنگش گورودوارہ فساد معاملے میں کانگریسی لیڈر جگدیش ٹائٹلر کو تین سکھوں کے قتل کے معاملے میں سی بی آئی کی کلین چٹ اور مجسٹریٹ عدالت کے ذریعے کلوزر رپورٹ کو منظور کرنے والے حکم کو بدھ کے روز سیشن عدالت نے مسترد کردیا۔ اس طرح1984ء میں ہوئے29 سال پرانے دنگوں کے معاملے میں ٹائٹلر ایک بار پھر پھنستے نظر آرہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے پرانے معاملے میں ٹائٹلر کوتین بار راحت ملی ہے اور تین بار دوبارہ مقدمے کی جانچ کے احکامات دئے جاچکے ہیں۔ سی بی آئی ہر بار پختہ ثبوت نہ ہونے کی دلیل پیش کرتی ہے۔ بدھوار کو کڑکڑ ڈوما عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج انورادھا شکلا بھاردواج نے سی بی آئی کی اس کلوزر رپورٹ کو مسترد کردیا جس میں جگدیش ٹائٹلر کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا سی بی آئی امریکہ میں مقیم ان تین لوگوں کا بیان درج کرنے کو مجبور ہے جن کے بارے میں ایک گواہ نے کہا تھا کہ وہ بھی موقعہ واردات پر موجود تھے۔عدالت کا کہنا ہے کہ جس وقت گواہ کابیان درج کیا جارہا تھا ،چاہے وہ سچ ہے یا جھوٹ، جانچ ایجنسی کا تقاضہ تھا کے ان لوگوں کے بیان درج کرتی یا کم سے کم ان سے پوچھ تاچھ کرلیتی۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہم جانتے ہیں سی بی آئی کو اختیار ہے کہ وہ اس نتیجے پرپہنچ سکتی ہے کہ گواہ جھوٹے تھے اور بھروسے کے لائق نہیں تھے اور اس طرح وہ اشو پر اپنا نظریہ رکھ کر کلوزر رپورٹ داخل کرسکتی تھی لیکن جانچ ایجنسی کو ان گواہوں کے بیان درج نہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اسی طرح ایجنسی نے عدالت کو گواہوں کے بھروسے کے بارے میں اپنا نظریہ طے کرنے سے روکا۔ عدالت میں اس فیصلے کے بعد عرضی گذار لکھوندر کور نے امید ظاہر کی ہے کہ انہیں انصاف ملے گا۔عدالت کے باہر حکم کی جیسے ہی اطلاع ملی باہر کھڑے فرقے کے لوگوں نے جشن منانا شروع کردیا۔ قابل غور ہے کہ 1984ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد دنگا بھڑک گیا تھا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً3 ہزار سکھ اس فساد کے شکارہوئے اوردیگر متعلقہ سکھ تنظیموں کے مطابق مرنے والے سکھوں کی تعداد5 ہزار سے زیادہ ہے۔ اتنا بڑا دنگا ہونے کے باوجود ہمیں سب سے زیادہ حیرانی ہماری عدالتوں پر ہے۔ سپریم کورٹ آئے دن گجرات فسادات جن میں مرنے والو ں کی تعداد تقریباً950 تھی، دہلی کے84 دنگوں میں مرنے والوں کی تعداد3 ہزار سے زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ نے گجرات دنگوں کے سلسلے میں کل 9 معاملوں کی جانچ کرنے کی ذمہ داری اسپیشل ٹاسک فورس کو سونپی۔ ان میں سے6 معاملوں کا فیصلہ آچکا ہے۔ ان دنگوں کے لئے سابق وزیر مایا کوڈنانی ،بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی سمیت ایک ہی کیس نرودا پاٹیہ کو اسپیشل کورٹ نے سزا دی ہے۔ درجنوں افسر جن میں سینئر افسران بھی شامل ہیں ، کو سزا ہوچکی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے آج تک 84 کے خوفناک شرمناک دنگوں پر ایک بھی جانچ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ کیوں ؟ بس وزیر اعلی نریندر مودی کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ گذشتہ29 برسوں سے انصاف کے لئے جدوجہد میں لگی لکھوندر کور جیسی تقریباً تین دہائی سے انصاف کے لئے لڑ رہیں سیاسی تنظیمیں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے سلسلے میں قانونی انتظام کی بے چارگی کی ایک کڑی ہے۔ گجرات فسادات کے بعد مودی حکومت نے جانچ میں عدالتوں کی جانچ کمیشنوں کی ہر ممکن مدد پر 1984 کے دنگوں میں آج تک کسی کی جوابدہی طے نہیں ہوئی ہے۔ چار پانچ غنڈے قسم کے کرمنلوں کو سزا کروا کر معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔ ایک بھی کانسٹیبل سے لیکر پولیس کمشنر تک کسی کے خلاف نہ تو جانچ ہوئی اور نہ ہی سزا۔ جگدیش ٹائٹلر قصوروار ہیں یا نہیں یہ تو پتہ نہیں لیکن وہ تنگ آچکے ہوں گے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لے لے اور اپنی نگرانی میں نئے سرے سے اسپیشل ٹاسک فورس بنوائے تاکہ یہ معاملہ ایک بار جڑ سے ہی ختم ہوجائے۔ متاثرہ خاندان کو انصاف ملے اور قصوروار چاہے جو بھی ہوں، کو سزا ملے۔ جو سی بی آئی پہلے ہی تین بار کلوزر رپورٹ دے چکی ہے اس سے جانچ کیسے ہوگی، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!