بھاجپا کو نتیش سے آر پار کی لڑائی لڑنی ہوگی

بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتادل (یو) کا17 سال پرانا رشتہ لگتا ہے اب ٹوٹنے کے دہانے پر ہے جس طریقے سے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے ایتوار کو نئی دہلی میں اپنی پارٹی کے دوروزہ اجلاس میں گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی پر حملہ بولا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ نتیش بہت آگے بڑھ گئے ہیں وہاں سے ان کا لوٹنا اور بھاجپا کو آنکھیں دکھانا ممکن نہیں ہے۔ جنتا دل کے دو روزہ اجلاس میں نہ صرف نریندر مودی ہی نتیش کے نشانے پر تھے بلکہ بھاجپا کومودی کو نشانہ بنا کر جم کر کھری کھوٹی سنائی گئی۔ ان کی تقریر سے ایسا لگ رہا تھا کہ جنتادل (یو ) کی میٹنگ مودی کے احتجاج کے لئے بلائی گئی ہے۔ نتیش کمار ایک طرف بھاجپا کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی سرکار چلا رہے ہیں تو دوسری طرف جب وہ نریندر مودی پر اتنا بڑا حملہ کرتے ہیں تو ایک طرح سے بی جے پی پر حملہ کررہے ہیں۔ جس انداز میں نتیش نے مودی پر حملہ بولا ہے ایسا لگا کہ وہ کانگریس کے لیڈر کے طور پر مودی پر حملہ کررہے ہیں۔ نتیش نے جنتادل (یو) کو کانگریس کی بی ٹیم بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج وہ کانگریس کے خیمے میں جانے کو بیتاب ہیں اور بہانا نریندر مودی کو بنا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ نتیش نے ایک طرح سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ اگر بھاجپا بہار کی جنتادل (یو) سرکار میں رہتی ہے تو جس کا اب بہت امکان ہے کے دونوں کو نقصان ہوگا اور صرف کانگریس کو فائدہ ہوگا لیکن کانگریس کے لئے بھی نتیش سے کھلا اتحاد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ برسوں سے کانگریس کے سب سے بڑے وفاداروں میں لالو پرساد یادو رہے ہیں بیشک وہ آج بہار کی سیاست میں اتنی اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بالکل ہی بے جان ہوگئے ہیں۔ ان کا اور رام ولاس پاسوان کا کانگریس کیا کرے گی؟ نتیش کمار اور لالو پرساد کا ایک خیمے میں ہونا ناممکن لگتا ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بھاجپا ترجمان مناکشی لیکھی نے پیر کو نتیش پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا بھاجپا کو نتیش کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکھی نے تو نتیش پر زوردار حملہ بولا ہے اور گجرات کے 2002 ء کے دنگوں کے لئے سیدھے انہیں بھی ذمہ دار ٹھہرادیا۔ لیکھی نے دو ٹوک کہا کے بھاجپا میں سبھی سیکولر ہیں اور2002ء میں نتیش جی بھی ہماری سرکار میں ریل منتری ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں ہمارے مکھیہ منتری کے بارے میں کہیں ان کی باتوں کو ہم خارج کرتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے سیکولر ساکھ کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کی مانگ کولیکر بھاجپا سے سیدھا ٹکراؤ لینا مہنگا ہوسکتا ہے۔ اگر جنتا دل (یو) کے سینئر لیڈروں کی مانیں تو خود ہی جنتا دل (یو) بھاجپا کے ساتھ اتحاد توڑنے کی بات پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ پارٹی نیتاؤں کے مطابق نتیش نے کچھ افسروں اور ہوا ہوائی لیڈروں اور کانگریسی لیڈروں کے اثر میں آکر جو سیکولرزم کے نام پر بیان بازی شروع کی ہے اس سے پارٹی کے سورن جاتیوں کے ووٹ تو ناراض ہیں ہی ساتھ ہی نتیش کی سوشل انجینئرنگ کے ذریعے پسماندہ طبقات کے ووٹروں میں جو سیند لگائی تھی وہ بھی ان سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ نتیش کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج بھی اقلیتوں میں لالو یادو کی مقبولیت کافی حد تک برقرار ہے۔ پھر اقلیتوں کو اب گارنٹی سے کوئی نہیں لے سکتا۔ وہ اس پارٹی کی حمایت کریں گے جو انہیں سب سے زیادہ فائدہ مند لگے گی جو ان کے مفادات کو آگے بڑھائے گی۔ یہ کانگریس ہو سکتی ہے۔ نتیش یہ کیوں مان کر چل رہے ہیں کہ مودی کو کوسنے سے اقلیتیں ان کے ساتھ آجائیں گی؟ نتیش کو جہاں مودی کی مخالفت میں بھاجپا کی کھٹاس محسوس ہورہی ہے وہیں ان کی اپنی پارٹی کا احتجاج بھی جھیلنا پڑ رہا ہے۔ بھاجپا کے قریبی مانے جانے والے راجیہ سبھا کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق نتیش نے سیکولرزم کا راگ چھیڑ کر پارٹی کے سامنے وہی صورتحال پیدا کردی ہے جو کبھی1977ء میں پارٹی کے سامنے جنتا پارٹی نے آر ایس ایس اور جن سنگھ کی دوہری ممبر شپ کو لیکر معاملہ اٹھایا تھا۔ اس وقت بھی اسی اشو پر پارٹی نے آخر کار سرکار سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ نتیش بھی اسی تجربے کو دوہرا رہے ہیں۔ ممکن ہے سیاسی تجزیہ کاروں کی مانیں تو لوک سبھا میں اگر نتیش بھاجپا سے الگ ہوکر میدان میں اترنے کا کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ بھاجپا اور این ڈی اے کو ہوسکتا ہے۔ نتیش کے ہاتھ کچھ زیادہ لگے اس میں شبہ ہے۔ اب فیصلہ بھاجپا کو کرنا ہے۔ کیا وہ نتیش کی بہار سرکار میں بنے رہ کر نتیش کو ہی مضبوطی دیتی رہے گی یا پھر الگ ہوکر پارٹی کو مضبوط کرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟