دہشت گردی سے لڑنے کی بھارت سرکار کی کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی قوت ارادی

دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ امریکہ میں بوسٹن میراتھن دھماکوں کے کچھ گھنٹوں بعد کرناٹک کے بینگلورو شہر میں بم دھماکے اس کا ثبوت ہیں کے بینگلورو کے بھاجپا دفتر کو نشانہ بنا کر جمعرات کو کئے گئے دھماکوں میں 11 پولیس والوں سمیت کم سے کم16 افراد زخمی ہوگئے۔5 مئی کو ہونے والے اسمبلی چناؤ کی وجہ سے اس دھماکے اور مقام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دھماکے کا ٹائم بھی اشارہ کرتا ہے چناؤ کی وجہ سے بھاجپا دفتر میں ورکروں اور ٹکٹ کے متلاشیو ں کی بھیڑ ہوگی۔ حالانکہ چناؤ کو دیکھتے ہوئے بھاجپا دفتر کے پاس خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ بم کو ایک وین اور کار کے بیچ میں کھڑی موٹر سائیکل پر لگایا گیا تھا۔ دھماکہ آئی ڈی کے ذریعے کیا گیا۔ دھماکے میں امونیم نائٹریٹ استعمال ہوا تھا۔ کیا17 اپریل کی تاریخ آتنک وادیوں کے لئے کوئی خاص اہمیت رکھتی ہے، کیا اسے اتفاق ہی سمجھیں کے ٹھیک تین سال پہلے17 اپریل 2010ء کو اسی شہر بنگلورو کے چننا سوامی اسٹیڈیم کے باہر شام4 بجے دو دھماکے ہوئے تھے جن میں 7 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے اسی شہر میں 25 ستمبر 2005ء اور10 مئی 2008 اور 25 جولائی 2009ء کو آتنک وادی دھماکے کر چکے ہیں۔ اسے اس دیش کی بدقسمتی ہی مانا جائے گا کہ آتنکی واردات پر سیاست ہوتی ہے۔ دھماکے کے فوراً بعد کانگریس کے سینئر لیڈر شکیل احمد نے ٹوئٹر پر کہا کہ بھاجپا دفتر کے باہر جو آتنکی حملہ ہوا ہے اس سے انہیں چناوی فائدہ ہوگا۔ بھاجپا صدر راجناتھ سنگھ نے کہا کہ آتنکی کارروائی میں کسی سلیپرسیل کا ہاتھ ہے جو آتنک واد کے خلاف لڑائی میں مرکز کی کوششوں کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ کانگریس سکریٹری جنرل جناردن دویدی نے اپنے نئے تبصرے میں کہا دہشت گردی سے جڑی کوئی بھی واردات قومی اور کچھ حد تک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ آتنک واد کو کانگریس پارٹی اس نظریئے سے دیکھتی ہے یہ پورے دیش کے لئے ایک چیلنج ہے اور اسے سیاسی نفع نقصان سے نہیں جوڑ کر دیکھنا چاہئے۔ امریکہ نے ایک بھی آتنکی حملہ برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جس سے وہ پچھلے 12 سالوں سے لڑ رہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں دہشت گردی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری ہے تو اس کے پیچھے بھارت سرکار کی قوت ارادی اور ادھوری تیاری ہے۔ جہاں بھارت سرکار کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کی تیاری ادھوری ہے یہ حال کے واقعات سے مورچے پر سرکار کی چنوتیاں اور بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے۔ این سی ٹی سی بنانے کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ اس قومی ایجنسی کی تجویز پچھلے ایک سال سے ریاستی حکومتوں اور مرکز میں تنازعوں کی وجہ سے لٹکی ہوئی ہے۔ ایک نیٹ گریٹ بنانے کی تجویز بھی آئی ہے۔ اس کے تحت بینک کھاتوں، فون نمبر، پین کارڈ، ووٹر کارڈ سمیت 21 خدمات پر آن لائن نظر رکھنے کا منصوبہ تھا لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ دہشت گرد عموماً ایسے بموں میں امونیم نائیٹریٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ابھی تک سرکار اس کی بکری پر روک لگانے میں ناکام رہی ہے۔ آتنکی حملے کو روکنے کے لئے سب سے زیادہ موثر بچاؤ ہے خفیہ ایجنسیاں اور مخبر۔ ایسا نہیں کے امریکہ میں دہشت گردوں نے پچھلے12 سالوں میں حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن وہاں کی خفیہ ایجنسیاں ، مخبر اتنے چوکنا ہیں کہ وہ حملہ ہونے سے پہلے ہی اس کو ناکام بنادیتے ہیں۔ ہمارے یہاں دیش میں40 ہزار لوگوں پرایک خفیہ ملازم مشتمل ہے جو اوسطاً10 ہزار سے کم ہے۔ہماری خفیہ ایجنسیوں میں ملازمین کی کمی بھی ایسے واقعات کو رکونے میں ناکامی کا سبب ہے۔ این آئی اے بیشک بنی لیکن اس میں بڑھیا افسروں کی بھرتی نہ ہونا اور ریاستوں کو جانچ کا اختیار نہ ہونا، مقامی پولیس کا تعاون نہ ملنا ان اسباب سے یہ دہشت گردی کے خلاف 2008ء میں بنی ایجنسی محض خانہ پوری میں لگی ہوئی ہے۔ جہاں تک ماحول کی بات ہے پارلیمنٹ پر حملے کے سازشی افضل گورو کو پھانسی کے بعد سے ہی کسی دہشت گردی کے واقعے کے بارے میں پیش گوئی کی جاچکی تھی۔ ادھر بھلر کی پھانسی کو لیکر ماحول خراب ہورہا ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کے اس بار بنگلورو میں دھماکہ کرناٹک۔ بھاجپا دفتر کے سامنے ہوا۔ یہ جگہ کسی مسجد، اسکول، بازار، بس، ٹرین، میٹرو یا جلوس کی جگہ کہیں بھی ہوسکتا تھا۔ اصل فکر تو اس بات کی ہے کہ ہم سب دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ امریکہ کی طرح بھارت نے حملے سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس کارگر پالیسی نہیں بنائی ہے اور نہ ہی اس سے نمٹنے کی قوت ارادی ہے۔ ذہنی طور سے ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ اس طرح کے بم دھماکے ہوتے ہی رہیں گے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟