نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت کاورلڈ میں بھی ڈنکا

چڑھتے سورج کو دیر سویر سبھی سلام کرتے ہیں۔ترقی کے بل پر گجرات میں تیسری بار جیت کا ڈنکا بجانے اور وزیر اعظم کی کرسی کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے وزیر اعلی نریندر مودی سے میل جول بڑھانے کے لئے گذشتہ جمعرات کو خود امریکی ممبران پارلیمنٹ اور صنعت کاروں کا ایک نمائندہ وفد آگے آیا اور اس کے پہلے یوروپی یونین اور برطانیہ کے نمائندے ان سے ملاقات کر ان کی ترقی کا گن گان کرچکے ہیں۔ 3 امریکی ممبران پارلیمنٹ سمیت18 پارلیمانی نمائندہ وفد نے نہ صرف مودی سے ملاقات کی بلکہ انہیں امریکہ آنے کی بھی دعوت دی۔ ان ممبران نے یہ بھی یقین دلایا کہ وہ دیگر ممبران کے ساتھ امریکی انتظامیہ سے مل کر مودی کو ویزا دلانے کی کوشش کریں گے۔ یہ دعوت اس لحاظ سے بھاجپا اور مودی کے لئے لائق تحسین بات ہے کہ یوروپ کے بعد اب امریکہ میں بھی مودی کی اہمیت کو سمجھا جارہا ہے۔ کم سے کم اہمیت سمجھنے کی شروعات تو ہوہی رہی ہے لیکن واقف کاروں کا خیال ہے دعوت دینے کا مطب ویزا دینے نہیں ہے۔ کیا یہ ایم پی امریکی انتظامیہ کو مطمئن کر پائیں گے اس کا جواب وقت ہی دے پائے گا لیکن یہ صحیح ہے گجرات میں امریکی کاروباریوں کے لئے سرمایہ کاری کی کافی بھرپور امکانات کے بارے میں امریکہ میں لابنگ کی شروعات ہورہی ہے۔ سچ تو یہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں کے ایک سے بڑھ کر ایک کٹر تاناشاہوں کو گلے لگانے والا اپنی سرزمین پر ان کی مہمان نوازی کرنے والا امریکہ اسبنیاد پر مودی کی مخالفت کرتا رہے کہ گجرات میں 2002ء میں جو خوفناک فساد ہوئے تھے انہیں روکنے میں مودی ناکام رہے تھے۔ ایک تو اس سلسلے میں نریندر مودی کو سپریم کورٹ سے کلین چٹ مل چکی ہے اور دوسرے وہ مسلسل تین بار بھاری اکثریت سے اسمبلی چناؤ جیت چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دیش کی جنتا کا ایک بڑا طبقہ بھی امکانی وزیر اعظم کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈروں میں ان کے بڑھتے قد کا کوئی اس وقت لیڈر نہیں ہے فی الحال یہ طے نہیں ہوا کہ مودی وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کے دیگر ممالک ان ملکوں پر کسی طرح کی پابندی لگائیں۔ لیکن مودی کا نام آئے اور کانگریس اور اس کے حمایتی چپ بیٹھے رہیں؟ شکاگو سے شائع اخبار ’ہائی انڈیا‘ کے مطابق اس نمائندہ وفد میں شامل ہونے کے لئے امریکی تاجروں سے7 ہزار سے16 ہزار (قریب ڈیڑھ لاکھ سے8 لاکھ روپے) فی شخص سے پیسہ لیا گیا۔ قانون کے مطابق امریکی کانگریس کے ممبر کسی طرح کے تحفے یا سفر کے اسپانسر کو قبول نہیں کرسکتے۔ بھاجپا نیتا وجے جولی نے مودی سے امریکی نمائندہ وفد کے ممبران سے ملاقات کے نام پر پیسے لینے کی بات کو غلط بتایا ہے۔ انہوں نے کہا اس میں کوئی سچائی نہیں جبکہ کانگریس ترجمان شکیل احمد کا کہنا تھا اس واقعے سے صاف ہے کہ نریندر مودی امریکی ویزا پانے کے لئے اس قدر بے چین ہیں کے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔مودی کو دیش سے معافی مانگنی چاہئے۔ جہاں تک مودی کے سیاسی مخالفین کی بات ہے یہ افسوسناک ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نریندر مودی کو اچھوت بنانے کے لئے ان کی طرف سے کی جارہی سخت محنت کے باوجود گجرات کے وزیر اعلی کی مقبولیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی ممبران نے جس طرح گجرات جا کر مودی کے درپر دستک دی اور انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی اس سے بھی نریندر مودی کی مقبولیت ہی بڑھے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟