جیل میں بند مسلم لڑکوں کو راحت دینے کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں

مسلم فرقے میں اپنی پکڑ بنانے کی سمت میں قدم بڑھاتے ہوئے منموہن سنگھ سرکار نے طے کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے معاملوں میں ملزم بے قصور لڑکوں کے معاملوں کی سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کرنے کے مطالبے پر غور کرے گی۔دہشت گردی کی سرگرمیوں کے الزام میں جیل میں بند بے قصور لڑکوں کے لئے انصاف کی مانگ کررہے لیڈروں اور ممبران پارلیمنٹ کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے بعد وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا ہم ان کے مطالبات پر غور کریں گے۔ مارکسوادی لیڈر اے بی بردھن کی قیادت والے اس نمائندہ وفد نے 14 نکاتی مانگوں پر مشتمل ایک میمورنڈم سونپا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بے قصور چاہے وہ کسی مذہب یا گروپ سے تعلق رکھتا ہو، زبردستی دہشت گردی کے الزام میں پولیس کو انہیں گرفتار نہیں کرنا چاہئے اور ایسے معاملوں میں عدالتی کارروائی جتنی جلدی ہوسکے ہونی چاہئے اور بے قصور رہا ہونے چاہئیں۔ لیکن سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر یہ پہل جیلوں میں بند ایک فرقے کے لڑکوں کے لئے ہی کیوں کی جارہی ہے؟ کیا یہ راحت دیش کے ہر ایک شہری کو نہیں ملنی چاہئے؟ چاہے وہ کسی بھی ذات ،مذہب، فرقے یا خطے کا ہو؟ ہم نے تو ہمیشہ سے کہا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق معاملوں کا جلد نپٹارہ ہونا چاہئے۔ برسوں لگ جاتے ہیں فیصلہ آنے پر۔ کئی کیسوں میں تو آخر میں جب فیصلہ آتا ہے تو ملزم بری ہوجاتا ہے ۔ تب تک وہ کئی سال جیل میں گذار چکا ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی تو تباہ ہوچکی ہوتی ہے۔ سرکار کی ٹائمنگ کو دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کیا یہ پہل 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے پیش نظر کی جارہی ہے۔ اس پہل سے تو یہ ہی اشارہ ملتا ہے کہ مبینہ گناہگارمسلم لڑکوں کو راحت دینے کے نام پر چناوی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ شبہ اس وقت پکا ہوجاتا ہے جب مرکزی حکومت نئے سرے سے پسماندہ مسلمانوں کو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دینے کا عزم جتارہی ہے۔جہاں تک آتنک واد کے معاملوں میں بے قصور مسلم لڑکوں کو راحت دینے کی بات ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کئی مسلم نوجوان دہشت گردی سرگرمیوں میں ملوث جیلوں میں بند ہیں اور ان کے معاملے بھی قریب قریب ویسے ہی ہیں جیسے مسلم لڑکوں کے اور پھر صرف مسلم لڑکوں کے دہشت گردی سے متعلق الزامات کی ہی بات کیوں آج پورے دیش میں لاکھوں نوجوان جیلوں میں بند ہیں اور ان کے خلاف لگائے گئے الزام ثابت نہیں ہوسکے۔ دہلی کی تہاڑ جیل میں ہزاروں قیدی موجود ہیں جنہیں زیر سماعت جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ کچھ معاملوں میں تو لوگ دہائیوں سے جیلوں میں ہیں آخر ایسے لوگوں کا خیال کیوں نہیں کیا جاتا؟ تہاڑ میں تو کچھ قیدی ایسے بھی ہیں جن کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں اور بس وہ ضمانتی نہ ہونے کے سبب تہاڑ میں سڑ رہے ہیں۔ سرکار کی منشا چاہے کچھ بھی ہو لیکن جنتا کے بیچ یہ ہی پیغام جائے گا کہ ایک بار پھر ووٹ بینک کی سیاست کی جارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟