راجناتھ کی نئی :ٹیم صحیح سمت میں صحیح قدم

بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ نے اپنی نئی ٹیم کا اعلان کردیا ہے۔ میری رائے میں یہ ایک صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔ کسی بھی ٹیم کا اعلان آسان نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں کچھ لوگوں کی نظروں میں خامیاں رہ جاتی ہیں اور وہ انہیں لیکر تنقید کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ کس مقصد سے یہ ٹیم بنائی جارہی ہے، اور جو لوگ ٹیم میں شامل کئے گئے ہیں کیا وہ اس کے حقدار ہوسکتے ہیں؟ بھاجپا کا 2014ء کا لوک سبھا چناؤ روڈ میپ صاف ہے۔اسے ان چناؤمیں200 سیٹیں جیتنی ہوں گی تب جاکر وہ اقتدار کا خواب دیکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے اسے پہلے اپنا گھر مضبوط کرنا ہوگا۔ راجناتھ سنگھ کے ذریعے اپنی ٹیم کی تشکیل اور پارلیمانی بورڈ کو پھر سے بنانے میں نریندر مودی کے بڑھتے اثر کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ نریندر مودی نہ صرف خود پورے زور شور کے ساتھ پارٹی کی سپریم باڈی پارلیمانی بورڈ میں واپسی کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ انہیں اپنے بھروسے مند کئی لوگوں کو اہم عہدے دلانے میں بھی کامیابی ملی ہے۔ راجناتھ سنگھ نے سماجی ، سیاسی اور علاقائی توازن بناتے ہوئے جو ٹیم اعلان کی ہے اس میں تقریباً ایک درجن مودی حمایتیوں کو جگہ ملی ہے۔ سینٹرل سیاست میں مودی نے زور دار طریقے سے اپنی موجودگی درج کرادی ہے۔ 6 سال پہلے پارٹی کی جس سپریم فیصلہ لینے والی تنظیم پارلیمانی بورڈ سے انہیں انہی راجناتھ سنگھ نے ہٹایاتھا۔ اسی میں انہی راجناتھ سنگھ نے مودی کوا پنی شرطوں پر لانے کو ایک طرح سے مجبور کیا ہے۔ا ب وہ اس جگہ کھڑے ہوگئے ہیں جہاں لوک سبھا و اسمبلی انتخابات کیلئے دعویداروں کا مستقبل طے کریں گے۔ مشن2014ء کو ذہن میں رکھ کر تیار کردہ ٹیم میں راجناتھ سنگھ نے ورون گاندھی کے ذریعے ایک بڑی چال چلنے کی تیاری کی ہے۔ ورون کے ذریعے ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کی ہے ۔ ورون گاندھی کو لاکر انہوں نے یہ پیغام تو دے دیا ہے کہ وہ اترپردیش کو زیادہ اہمیت دینے جارہے ہیں ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بی جے پی اب نوجوان چہروں کو آگے بڑھانے میں کوئی قباحت نہیں کرے گی۔ ورون گاندھی کی ساکھ سے ہندوتو کو بھی تقویت ملتی ہے اور اگر کانگریس کے پاس راہل گاندھی ہے تو بھاجپا کے پاس ورون گاندھی ہیں۔ پارٹی مانتی ہے کہ یوپی میں جب تک بی جے پی شاندار کارکردگی نہیں دکھاتی اس کے لئے دہلی کے اقتدار کا راستہ آسان نہیں۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں اہم کردار نبھا چکی تیز طرار اور ہندوتو کی مضبوط علامت اما بھارتی کو اپ پردھان بنا کر صاف اشارہ دیا ہے کہ پارٹی اپنے بنیادی اصولوں پر لوٹے گی۔ دوسری طرف بہار میں جنتا دل (یو) کے ساتھ بنتے بگڑتے رشتوں کے درمیان مودی حمایتی سی پی ٹھاکر و رامیشور چورسیہ ٹیم میں آئے تو راجیو پرتاپ روڑی، شاہنواز حسین، ایس ایس اہلوالیہ کو شامل کرکے راجناتھ سنگھ نے جتادیا ہے کہ ان کی نظروں میں بہار کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ کرناٹک اسمبلی چناؤ کے پیش نظر اننت کمار کے ساتھ ساتھ سدانند گوڑا کو بھی سینٹرل کمیٹی میں جگہ اس لئے دی گئی ہے کہ راجناتھ سنگھ کی نئی ٹیم میں تین خوبیاں نظر آرہی ہیں۔ جنرل سکریٹریوں کی اوسط عمر50 سال ہے ۔جس سے نوجوان لیڈر شپ کو ترجیح دئے جانے کی نیت صاف جھلکتی ہے۔ 40 فیصدی عورتوں کو ٹیم میں جگہ ملی ہے۔ ٹیم میں سبھی طبقوں کو نمائندگی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ بنیادی ورکروں کو نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ ٹیم راجناتھ کے سامنے اب تین اہمیت بڑی چنوتیاں ہیں۔ کرناٹک اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں بہتر کارکردگی دکھانا،جن ریاستوں میں بھاجپا کی حکومتیں ہیں ان میں اقتدار برقرار رکھنا اور جن میں نہیں ہیں وہاں اقتدار میں آنا۔ این ڈی اے پارٹیوں سے بہتر تعلق بنانے کی سمت میں کام ضروری ہوگا۔ بہتر ہوگا کے جیسے اٹل جی نے جارج فرنانڈیز کو یہ کام دے رکھا تھا اسی طرز پر ایک دو لیڈروں کویہ کام سونپا جائے کہ وہ کنبے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے بڑھانے کی کوشش کریں۔ نریندر مودی کی ساکھ کو قومی سطح پر قابل قبول بنانا یہ بھی ٹیم راجناتھ کے لئے ایک اہم چیلنج بھرا کام ہوگا۔ ہر ٹیم کے اعلان کے بعد تھوڑی ناراضگی تو ہوتی ہے لیکن ان کو سمجھا بجھا کر لائن پر لایا جاتا ہے۔ جیسا میں نے کہا کہ میری رائے میں یہ راجناتھ سنگھ کا صحیح سمت صحیح قدم ہے۔ باقی تو آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟