اقتدار کے دو مرکز کو لیکر دگوجے بنام جناردن میں گھمسان

اقتدار کے دو مرکز کے مسئلے پر کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ اپنے قدم واپس کھینچنے کو تیار نہیں ہیں۔ دگوجے سنگھ نے دوہرایا کے میں نے جو کچھ کہا ہے میں اس پر قائم ہوں۔ میں نے وہ آن ریکارڈ کہا ہے۔ اس تنازعے کو چھیڑتے ہوئے کانگریس سکریٹری جنرل اور میڈیا انچارج جناردن دویدی نے میڈیا سے کہا کانگریس صدر اور وزیر اعظم کے درمیان بہتر تال میل ہے اور دونوں کے بیچ جو رشتہ ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ شاید مستقبل کے لئے بھی وہ ایک مثال ہے۔ اس بیان کے بعد یہ قیاس آرائیاں لگنی شروع ہوگئی ہیں کہ یوپی اے ۔III کی صورت میں یہ تجربہ دوہرا سکتی ہے۔ دگوجے سنگھ اور جناردن دویدی کے پاور کے دو مرکز فیل یا فائد ے مند کی بحث نے سیاسی تنازعے کو جنم دے دیا ہے۔ سیاسی مبصروں کا کہنا ہے کہ جنریشن چینج کے دور سے گذررہی ہے اور پارٹی خود کو تبدیلی کے لئے ابھی پوری طرح تیار نہیں کرپائی ہے۔ اس کا خاطر خواہ اثر نہ صرف پارٹی پر پڑ سکتا ہے بلکہ کہیں نہ کہیں یہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ساکھ پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ دراصل کانگریس بحرانی دور سے گذر رہی ہے۔ راہل کے جوش اور پرانے لیڈروں کے ہوش کے درمیان تال میل بٹھانے اور ان کے میعار کو بنائے رکھنے میں دقتیں صاف نظر آرہی ہیں۔ جہاں راہل اپنے حساب سے پارٹی کو نئے ویژن کے ساتھ آگے لے جانا چاہتے ہیں وہیں دوسری طرف دوسرا طبقہ تبدیلی کی رفتار کو لے کر فکر مند ہے۔ یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ اگر دگوجے سنگھ راہل گاندھی کے بھروسے مند ہیں وہیں جناردن دویدی سونیا گاندھی کے وفادار ہیں ،آخر ماجرہ کیا ہے؟ ان بیانوں کے پیچھے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ پہلا اگر لوک سبھا چناؤ کے بعد کانگریس کو امید سے کم سیٹیں ملتی ہیں تو شاید راہل گاندھی وزیر اعظم بننا پسند نہیں کریں گے اور ایسے میں منموہن سنگھ یا ایسے دوسرے پاور سینٹر کی ضرورت پڑے گی جو سرکار کی باگ ڈور سنبھالے۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ راہل اتحاد کی سیاست سے اتنے زیادہ مطمئن نہیں رہے ہیں وہ وزیر اعظم تبھی بنیں گے جب انہیں لگے گا کے وہ اپنے طریقے سے فیصلے لے سکیں گے۔ ایسے میں205 سے زیادہ سیٹیں آنے پر ہیں راہل گاندھی وزیر اعظم بننے کی سوچیں گے۔ کانگریس 2014ء میں لوک سبھا چناؤ کو راہل بنام نریندر مودی نہیں بنانا چاہتی۔ ایسے میں مودی بنام منموہن کا ہی متبادل کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ سونیا گاندھی بطور کانگریس صدر ناکام نہیں ہوئی ہیں۔ انہی کی وجہ سے یوپی اے 9 سال سے اقتدار میں ہے۔ اگر سونیا نہ ہوتیں تو کانگریس اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں نہ رہتی۔ فیل اگر کوئی ہے تو وہ وزیر اعظم منموہن سنگھ ہیں۔ ان کی اقتصادی پالیسیاں ، ان کی سرکار کی انتہائی خراب پرفارمینس کانگریس کو ڈوبا رہی ہے۔ اس نقطہ نظر سے دگوجے سنگھ صحیح کہہ رہے ہیں کہ اقتدار کے دو مرکز (منموہن اور سونیا) ناکام ہیں۔ پارٹی کو اندرونی جمہوریت کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ اچھا سسٹم ہے کے تنظیم اور سرکار کی کمان الگ الگ ہاتھوں میں ہے۔ این ڈی اے کے عہد میں یہ ہی سسٹم تھا۔ اٹل جی پردھان منتری تھے اور اڈوانی جی ڈپٹی وزیر اعظم۔ اٹل جی اپنے اتحادی ساتھیوں سے بہتر تال میل کے ساتھ کام دیکھتے تھے اسی لئے انہوں نے شری جارج فرنانڈیز کو اپنے ساتھ لگائے رکھا تھا۔ اڈوانی جی پارٹی کی تنظیم اور سرکار کی کارگذاری پر پوری توجہ دیتے تھے تبھی تو وہ جاکر کامیاب ہوئے۔ ایسا نہرو، شاستری، اندرا گاندھی کے وزیر اعظم کے عہد میں بھی ہوا تھا جب کانگریس کی کمان یو این دیور ، کامراج اور نیلم سنجیوا ریڈی سے لیکر شنکر دیال شرما سمیت کئی لوگوں کے ہاتھوں میں رہی البتہ نرسمہا راؤ اور راجیوگاندھی کانگریس کے دو پردھان منتری تھے جو اپنی پوری میعاد میں پارٹی کے صدر بھی رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سونیا ،منموہن کی جوڑی پارٹی کی اندرونی جمہوریت سے نہیں بلکہ سیاسی حالات سے پیدا ہوئی ہے۔ جس میں منموہن سنگھ بری طرح ناکام رہے ہیں۔ سوال اقتدار کے ایک مرکز کا نہیں ہے اجتماعی ذمہ داری کا بھی ہے جس کی موجودہ سسٹم میں کمی دکھائی پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ کانگریس کو جلد ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کے کیا لوک سبھا چناؤ 2014ء اسی جوڑی کی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے؟ حقیقت میں یہ صورتحال کانگریس کی پریشانی کو ہی دکھا رہی ہے جسے آج نہیں کل یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ کون نمبر 2 کا ہے۔ راہل گاندھی کا رول چناؤ میں کس طرح کا رہے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟