لیاقت کی گرفتاری : جموں و کشمیر و دہلی پولیس آمنے سامنے
دہشت پھیلانے کی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار حزب المجاہدین کے دہشت گرد سید لیاقت علی شاہ کی گرفتاری تنازعات میں گھر گئی ہے اور گرفتاری کو لے کر ایک بار پھر دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان ٹکراؤ سامنے آگیا ہے۔ اب مرکزی سرکار اس معاملے کی جانچ قومی سراغ رساں ایجنسی آئی این اے کو سونپ دینے کے اشو پر پس و پیش میں ہے۔ دہلی پولیس کا دعوی ہے کہ وہ نیپال سے گورکھپور کے راستے راجدھانی دہلی میں ہولی کے موقعے پر دہشت پھیلانے کے لئے آرہا تھا۔ اس کے پاس سے ایک اے کے۔56 رائفل، تین دستی بم اور دو میگزین،30 کارتوس برآمد کئے گئے۔ وہیں جموں و کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تو خود سپردگی کرنے کے لئے بھارت آرہا تھا جس سے ریاستی سرکار کی بازآبادکاری پالیسی کے فائدہ اٹھاسکے۔ ظاہر ہے جموں و کشمیر پولیس یا دہلی پولیس دونوں میں سے ایک تو سچ نہیں بول رہی ہے۔ دہشت گردی اس دیش کے لئے کتنا سنگین مسئلہ بن گیا ہے لیکن اس واقعہ سے صاف ہے کہ اس کے تئیں سرکار سنجیدہ دکھائی نہیں پڑتی۔ لیاقت بازآبادکاری کے لئے آرہا تھا یا تباہی مچانے اس کا خاندان اس کے ساتھ تھا یا نہیں اس کی صحیح جانکاری نہ ہو پانا سرکار کی نااہلیت نہیں ہے تو کیا ہے؟ آتنک واد پر ایسی غفلت دیش اورشہریوں کی سلامتی کے لئے کتنی خطرناک ہے شاید سرکار یہ سمجھنے کو تیار نہیں؟پہلے بھی بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ جیسے واقعات کو لیکر پولیس کی کارروائی پر سوال کھڑے کئے جاتے رہے ہیں۔ ان تنازعوں میں دیش کی سلامتی سے زیادہ سیاست ہی سامنے آئی ہے۔اب جموں و کشمیر پولیس نے لیاقت کو ریاست کی بازآبادکار پالیسی کے تحت حوالگی کے لئے بھارت آرہے سابق دہشت گرد بتا کر دہلی پولیس کے دعوے پر سوال کھڑے کردئے ہیں جبکہ دہلی پولیس کے مطابق لیاقت علی دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کا گرگا ہے اور اپنے پاکستانی آقاؤں کی ہدایت پر تباہی مچانے بھارت لوٹ رہا تھا۔ اس سچائی کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تصدیق ہونی چاہئے کہ کہیں جموں و کشمیر اسمبلی کے اس سال ہونے والے انتخابات کے پیش نظر اس گرفتاری کو لیکر سیاست تو نہیں ہورہی ہے، کیونکہ پچھلے 23 سال سے دہشت گردی کی تپش جھیل رہی ریاست میں دہشت گردی اور سیاست کے مبینہ میل جول پر پہلے بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ چاہے وہ پی ڈی پی سرکار کی دہشت گردی کے تئیں نرم پالیسی رہی ہو یا موجودہ نیشنل کانفرس و کانگریس اتحاد کی سرکار کی بازآبادکاری پالیسی رہی ہو۔ مرکز ی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ لیاقت کی گرفتاری سے جڑے سوالوں کے جواب کے لئے تفتیش این آئی اے کو سونپی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ این آئی اے کن کن نکتوں کی جانچ کرے گی؟ لیکن یہ طے ہے کہ این آئی اے کو لیاقت علی کو حراست میں لیکر اس سے پوچھ تاچھ کرنی پڑے گی۔لیکن لیاقت کیا کہے گا وہ کیوں مانے گا دہلی میں فدائین حملے کے لئے آیاتھا؟ اس اشو پر دہلی پولیس بیک فٹ پر ہے۔ اسے اپنے ذرائع بتانے پڑیں گے۔ کچھ فون نمبروں پر بات چیت پکڑی ہے وہ بھی بتانی پڑے گی۔ اب سبھی پہلواین آئی اے کے افسروں کو بتانے پڑ سکتے ہیں۔ این آئی اے کو بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ جامع مسجد کے قریب گیسٹ ہاؤس سے ملے اتنے خطرناک ہتھیار کس کے ہیں۔ وہاں کیسے پہنچے۔ وہاں کہاں سے آئے دو شخص اصل میں کون تھے۔ہوٹل اسٹاف کا کیا کہنا ہے۔ادھر خبر آئی ہے کہ لیاقت کی گرفتاری سے حزب المجاہدین میں کھلبلی ہے۔ آپریشن کے فیل ہونے سے آتنکی سکتے میں ہیں۔ ایک بڑے دہلی پولیس افسر کی مانیں تو کچھ اسی سلسلے کی ایک کال خفیہ ایجنسیوں نے پکڑی ہے۔ جموں وکشمیر سے کچھ لوگوں نے پاکستان میں آقاؤں کو فون پر لیاقت کی گرفتاری کی خبردی تھی۔ جانچ سے پتہ چلا ہے کہ جو اے کے۔56 رائفل جامع مسجد علاقے سے برآمد ہوئی وہ چین میں بنی ہے۔ گیسٹ ہاؤس میں جس آتنکی نے کمرہ بک کرایاتھا اس نے اپنانام محمد اور پتہ بھوانی ہریانہ کا لکھوایا تھا جو فرضی پائے گئے۔ ادھر اسپیشل سیل کے حکام نے بتایا لیاقت کی گرفتاری میں مسلح فورس کی بھی مدد لی گئی تھی۔ لیاقت علی شاہ پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کے مظفر آباد کا رہنے والا ہے۔ اس کے پاس سے ایک مہاجر کارڈ ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مہاجر بن کر وہ اپنی بیوی و بچے کے ساتھ رہتا تھا۔ بتادیں کے اس کارڈ کے ہولڈر کو وہاں کی سرکار کی طرف سے 15 ہزار روپے ماہانہ کی مدد ملتی تھی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں