کینسر کے مریضوں کو سپریم کورٹ نے دی بڑی راحت

مریضوں کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر کینسر کی دوا پر اپنا حق جمانے کی دلیل دینے والی سوئٹزرلینڈ کی کمپنی نورٹیز کو بھارت کی سپریم کورٹ نے زبردست جھٹکا دیا ہے۔ جو کئی معنوں میں تاریخی و دوررس نتائج والا فیصلہ سنایا ہے۔سوئس کمپنی کی اس عرضی کو خارج کردیا جس میں اس نے گلیویک دوا پر پیٹنٹ کے اختیار کا دعوی کیا تھا۔ ساتھ ہی ہندوستانی کمپنیوں کو اس کے سستے(جینیرک) ایڈیشن کو بنانے سے روکنے کی اپیل کی تھی۔ یہ کمپنی 7 سال سے گلیویک کو بھارت میں پیٹنٹ کرانے کی قانونی لڑائی لڑ رہی تھی اس پر دنیا بھر کی فارما کمپنیوں کی نگاہیں لگا تھیں۔ گلیویک دوا کو خون و کھال و دیگر طرح کے کینسر کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپنی کا دعوی تھا کہ گلیویک میں زیادہ میٹلک اجزا کا استعمال ہوا تھا جو نیا پروڈکٹ ہے لہٰذا کمپنی کو اس دوا کا پیٹنٹ ملنا چاہئے۔ دوسری دلیل یہ بھی دی گئی تھی کہ دوا میں صرف اجزا کا ہی مرکب نہیں بدلا ہے برسوں سے تحقیق ہوئی ہے اس لئے یہ ایورگریننگ پیٹنٹ کا معاملہ نہیں ہے۔ تیسری دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقصد غریب مریضوں سے پیسہ کمانا نہیں ہے۔85 فیصد غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ ہم انہی اصولوں کی بنیاد پرلڑائی لڑ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کے پیٹنٹ کا حق صرف اصل ایجاد پر ہی دیا جاتا ہے۔ ایک ہی ایجاد کو دوبارہ ایجاد نہیں مانا جاسکتا۔ ایمینیٹو میرولیٹ کوئی نہیں ایجاد نہیں ہے۔ اس کی جانکاری پہلے سے ہی موجود ہے ۔ صرف اس بنیاد پر پیٹنٹ نہیں مل سکتا فیصلے سے غیرملکی کمپنیوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے جب جب نئی ایجاد ہوں گی پیٹنٹ کا اختیار ضرور ملے گا۔ یہ دعوی بھارتیہ پیٹنٹ قانون کے تحت مقرر تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نورٹیز کی طرح فائجر اور روم ہولڈنگ اے جی جیسی کمپنیاں بھی پیٹنٹ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے گلیویک پیٹنٹ کی عرضی کو خارج کرکے غریبوں کو بری راحت دی ہے۔ کینسر کی دوا عام طور پر سوا لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ اب یہ صرف 10 ہزار روپے میں ملنے کی امید ہے۔ اس تاریخی فیصلے کا عالمی دوا کاروبار پر دور رس اثر پڑنا طے ہے۔ اس کی اہمیت اسی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی دوا کمپنی نورٹیز کو گلیویک کا پیٹنٹ دے دیا جاتا ہے تو وہ ہمارے یہاں مریضوں سے ہر مہینے سوا لاکھ روپے تک وصولنے کے لئے آزاد ہوجاتیں جبکہ اس فارمولے کی سستی دوائیں محض 8سے40 ہزار روپے میں بازارمیں دستیاب ہیں۔ اصل میں یہ ایک بڑا کھیل ہے جس میں بڑی بین الاقوامی کمپنیاں پہلے سے موجود دواؤں میں معمولی ردو بدل کرکے یا پھر ان کا نام بدل کر انجام دیتی ہیں۔ جس گلیویک کے پیٹنٹ کے لئے دعوی کیا جارہا تھا وہ یعنی نئے فارمولے سے نہیں بنی بلکہ 15 برس پہلے بازار میں اتاری جاچکی دوا کی نئی شکل ہے۔ اس دوا کی مانگ کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کے نورٹیز دنیا بھر میں 4 ارب ڈالر کی گلیویک دوا فروخت کر چکی ہے۔ نورٹیز کمپنی نے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ فیصلہ مریضوں کے لئے بڑا جھٹکا ہے اس سے کینسر کی بیماری کے اسباب و علاج کے متبادل مہیا نہیں رہنے سے میڈیکل ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔ لیکن ہم بھارت میں پیٹنٹ کے لئے دعوی کرتے رہیں گے۔ دوسری طرف اس فیصلے سے بھارت کے کینسر مریضوں کے لئے گلیویک جینیرک سیریز کو تیار کرنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ جینیرک(سستی) دواؤں کے دام پیٹنٹ دواؤں کی قیمتوں سے بہت کم ہوتے ہیں جبکہ یہ دوائیں بھی اتنی ہی کارگر ہوتی ہیں جتنی پیٹنٹ شدہ۔ نورٹیز کی گلیویک دوا کی ایک مہینے کی خوراک تقریباً1 لاکھ20 ہزار روپے بنتی ہے۔ وہیں ہندوستانی کمپنیوں کی جانب سے جینیرک دوا پر خرچ 8 سے10 ہزار روپے مہینہ ہی آئے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!