ملائم سنگھ کی تلخی، نشانے پر یوپی اے اور کانگریس

پچھلے کچھ دنوں سے سپا چیف ملائم سنگھ یادو اور کانگریس پارٹی میں تلخی بڑھ گئی ہے۔ یہ تکرار کہاں جاکر بند ہوگی کہا نہیں جاسکتا لیکن جس طرح سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکا رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ ان کا ساتھ اب زیادہ دن چلنے والا ہے۔ ملائم سنگھ یادو نے کانگریس کو دھوکے باز اور چالاک لوگوں کی پارٹی قراردیا ہے۔ بدھوار کو سیفئی میں ملائم پورے جوش میں نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ جنتا مرکز کی یوپی اے سرکار کے کرپشن سے اب تنگ آچکی ہے۔ کانگریس سے لوگوں کی رقبت ختم ہوچکی ہے۔ لوگوں کے پاس اب تیسرا مورچہ ہی متبادل ہے۔ ادھر اعظم خاں نے بھی کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ راہل اور پرینکا گاندھی سکے کے دو پہلوں ہیں۔ جس میں سے راہل کھوٹے سکے ہیں۔ یوپی اے سرکار کی سب سے بڑی ساتھی رہی ڈی ایم کے کے حمایت واپسی کے بعد ملائم سنگھ نے سیاسی داؤ پیچ تیز کردئے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بھاجپا کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کی جم کر تعریف کردی۔ تنگ آکر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس کو مسترد کرتے ہوئے ساؤتھ افریقہ سے لوٹتے ہوئے کہا کہ لوک سبھا چناؤ اپنے وقت پر2014 میں ہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ سماجوادی پارٹی حمایت واپس لے سکتی ہے تو لے لے۔ لیکن ملائم نے کہا کہ یوپی اے سے حمایت واپسی کے بارے میں ا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ملائم نے کہا کہ کانگریس اپنی سرکار سی بی آئی اور ا نکم ٹیکس محکمے کے ذریعے بچا رہی ہے۔ کانگریس ہمیشہ سے اپنی سرکار بچانے کے لئے دونوں محکموں کو ہتھیار بناتی ہے۔ کانگریس بھروسے مند پارٹی کبھی نہیں رہے۔ کانگریس کے پاس بہت سے پتتے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے وہ لاتی ہے۔ میڈیا کی طاقت بھی کانگریس کے ساتھ ہے۔ دہلی میں روز آبروریزی ہوتی ہے لیکن میڈیا یوپی کے معاملے زیادہ اچھالتا ہے۔ ملائم سنگھ ایک نہیں درجن بار کہہ چکے ہیں یہ یوپی اے سرکار اپنی میعاد پوری نہیں کرسکے گی۔ اب انہوں نے کہا کہ نومبر میں عام چناؤ ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ کانگریس نے2014ء کے لوک سبھا چناؤ کی تیاری نومبر 2012ء سے ہی شروع کردی ہے لیکن ڈی ایم کے کی حمایت واپسی کے بعد پارٹی اور سرکار میں بے چینی ضرور بڑھی ہے۔ کانگریس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی ملائم سنگھ پر جیسے ہی بجٹ ختم ہوتا ہے ہلہ بول دے گی۔ قانون و نظام کے ساتھ ساتھ بھاجپا کے تئیں ملائم کی نرمی سے درجن بھر اشوز پر سپا سرکار کو گھیرا جائے گا۔ اترپردیش چناؤ کے برعکس یہ تحریک ان سے نہ شروع ہوکر بلاک اور تحصیل و ضلع اور پردیش سطح پر چھیڑی جائے گی۔ کانگریس مان رہی ہے کہ لیفٹ پارٹیاں بسپا جیسی پارٹی ابھی چناؤ نہیں چاہتیں۔ لیفٹ مورچہ مغربی بنگال میں جہاں ممتا بنرجی سرکار کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھنے کا انتظار کررہا ہے وہیں مایاوتی بھی مان رہی ہیں کہ اترپردیش میں ہر دن سپا سرکار کے خلاف اقتدار مخالف لہر زور پکڑ رہی ہے۔ ادھر ڈی ایم کے بھی سرکار سے باہر جانے کے باوجود مرکز کے خلاف تلخ نہیں دکھائی پڑ رہی ہے۔ ان حالات میں ملائم کی حمایت واپس لینے سے بھی سرکار شاید ہی مشکل میں پڑے۔ ابھی فی الحال یوپی اے سرکار اور کانگریس کی ترجیح پارلیمنٹ سے بجٹ پاس کرانے کی ہے اس لئے کانگریس بجٹ اجلاس نمٹتے ہی ملائم اور اکھلیش سرکار کے خلاف اترپردیش میں زور دار مہم چھیڑے گی۔ پارلیمنٹ میں سپا کے ساتھ کی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ ان دنوں کانگریس اترپردیش میں تنظیم کو مضبوط کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ ملائم کا ہلہ بول کیا رنگ لاتا ہے اور کب لاتا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟