سی بی آئی یا کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن

یوپی اے سرکار سے حمایت واپسی کے36 گھنٹوں کے اندر ہی ڈی ایم کے کے قائمقام صدر ایم کے اسٹالن کے چنئی میں واقع گھر پر چھاپہ مارکر س بی آئی نے پہلے سے ہی گرمائی سیاست میں اور گرمی لادی ہے۔ مرکزی حکومت کی رقابتی سیاست کا سندیش جانے سے پریشانی میں پڑے وزیر اعظم منموہن سنگھ وزیر خزانہ پی چدمبرم سے لیکر پورا سرکاری عملہ صفائی دیتا نظر آیا۔ پی ایم نے جہاں اس چھاپے کے وقت کو افسوسناک قراردیا وہیں چدمبرم نے ساری مریادائیں توڑتے ہوئے چھاپوں کی مذمت کردی۔ اتنا ہی نہیں سرکار کی طرف سے سی بی آئی کے چھاپوں کے پیچھے سازش کاا ندیشہ جتایا جارہا ہے۔ اس پورے ڈرامے کے دو اہم کردار ہیں کانگریس پارٹی اور سی بی آئی۔ پہلے تو ہم سی بی آئی سے پوچھنا چاہیں گے کے وہ ان گاڑیوں کی ٹیکس چوری معاملے میں ملوث کیوں ہوئی؟ کیا سی بی آئی کے پاس اور کوئی کام نہیں بچا کے اب وہ گاڑیوں کی برآمد میں ٹیکس چوری کے معاملے میں بھی چھاپے مارنے لگی ہے؟ ویسے بھی سی بی آئی کی کارگزاری تسلی بخش نہیں۔ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی راجا بھیا معاملے میں سی بی آئی ابھی تک کچھ نہیں کرسکی۔ دراصل سی بی آئی کا ہوا دکھا کر حکمراں پارٹی اپنے سیاسی مفاد کی تکمیل کرتی ہے۔ رہا سوال کانگریس کا تو اپنی طرف سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلا نشانہ ڈی ایم کے ہے دیکھو ہم سے حمایت واپس لینے کی سزا کے لئے تیار رہو۔ دوسری ان باقی اتحادی پارٹیوں بسپا، سپا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر تم نے الگ ہونے کی جرأت کی تو نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار رہنا۔ میری رائے میں کانگریس حکمت عملی سازوں کی عقل خراب ہوچکی ہے۔ کانگریس’’ وناش کالے وپرت بدھی‘‘ کہاوت چل رہی ہے۔ اس سال 9ریاستوں میں چناؤ ہونا ہے جن میں یہ ہونے ہیں ان میں تاملناڈو، آندھرا پردیش شامل ہیں۔ کانگریس اب تک ڈی ایم کے ، ٹی آر سی اور ترنمول کانگریس سے مل کر چناؤ لڑتی رہی ہے۔ آج کانگریس سے یہ تینوں نہ صرف ناراض ہیں بلکہ وہ اب کانگریس سے گٹھ جوڑ کر چناؤ بھی نہیں لڑیں گی۔نتیجہ یہ ہوگا کہ ان ریاستوں میں کانگریس کو اکیلا لڑنا پڑے گا۔ دراصل کانگریس کی یہ ریپوٹیشن بنتی جارہی ہے کہ ضرورت پڑنے پر باپ بنا لیتی ہے اور کام نکلنے پر اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینک دیتی ہے۔ ایسا برتاؤ کرتی ہے ۔ آج لالو پرساد یادو جیسے سب سے بھروسے مند اتحادی کا کیا حال ہے؟ چار ممبران کے باوجود آر جے ڈی کا ایک بھی وزیر مرکزی کیبنٹ میں شامل نہیں ہے۔ آندھرا میں جگن ریڈی ایک مضبوط ستون تھے لیکن اسے سی بی آئی نے کیسوں میں پھنسا کر ایسا دشمن بنا لیا ہے کہ اس نے بھی قسم کھا لی ہے کہ آندھرا میں کانگریس کا صفایا کرکے ہی دم لیں گے۔ کبھی جنوبی ہندوستان کانگریس کا مضبوط گڑھ مانا جاتا تھا آج کانگریس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ رہی سہی تصویر اسمبلی چناؤ میں نظر آجائے گی۔ ٹی آر ایس کو تحریری طور پر دے کر اسمبلی چناؤ میں تو ان کا پورا فائدہ اٹھا لیا لیکن کام ہوتے ہی لات مار کر باہر کردیا۔ آج کانگریس پر کسی بھی اتحادی کو بھروسہ نہیں رہا۔ شرد پوار اپنا الگ کھیل کھیل رہے ہیں۔ کانگریس اتحاد دھرم کو نبھانے میں بری طرح فیل ہوگئی ہے۔ تبھی تو رام گوپال یادو نے کہا کہ اٹل بہاری واجپئی اتحادی حکومت نے گٹھ بندھن دھرم بہتر طریقے سے نبھایا تھا۔ این ڈی اے اتحاد اور یوپی اے اتحاد سے کہیں بہتر تھا۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس جاری ہے اور کئی اہم بل پاس کرانے ہوں گے ان حالات میں منموہن سنگھ سرکار انہیں کیسے پاس کرائے گی یہ الگ مسئلہ ہے۔ اسٹالن پر سی بی آئی کا چھاپہ کہیں یوپی اے سرکار کے تابوت میں آخری کیل کا کام نہ کردے؟ اگر آج سی بی آئی کو کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن یا کانگریس بچاؤ انسٹیٹیوٹ کہہ کر مخاطب کیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!