بینی پرساد بنام ملائم سنگھ یادو نشانے پر اقلیتی ووٹ

مرکزی وزیر فولاد بینی پرساد ورما جیسے دوست ہوں تو کانگریس کو دشمنوں کی کیا ضرورت۔ ایک طرف تو کانگریس کے نوجوان نائب صدر راہل گاندھی بے قصور مسلمان لڑکوں کو دہشت گردی میں زبردستی پھنسانے کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں وہیں بینی پرساد سماج وادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو کو آتنک وادیوں کا حمایتی بتا رہے ہیں۔ بینی پرساد میں گونڈہ میں ایک ریلی میں کہا کہ ملائم سنگھ مبینہ غنڈے ہیں اور آتنک وادیوں کے حمایتی ہیں۔ میں ملائم سنگھ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ کمیشن کھاؤ پریوار کو کھلاؤ لیکن بینی پرساد ایسا نہیں چلے گا۔ یہ پہلی بار نہیں جب بینی بابو کے بیان سے کانگریس کو نقصان پہنچا ہو۔ پچھلے اترپردیش اسمبلی چناؤ میں بھی ان کے متنازعہ بیانات سے پارٹی کو بھاری نقصان پہنچا۔ رہی ان کی یوپی میں حیثیت کی ، وہ تو اسمبلی چناؤ میں اپنے بیٹے کی ضمانت تک نہیں بچا سکے۔ بینی پرساد نے ملائم کے خلاف ایسا بیان آخر کیوں دیا؟ ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ بینی بابو گونڈہ سے چناؤ لڑتے ہیں یہاں مسلم سیاست زوروں پر چلتی ہے۔ گونڈہ میں بریلوی فرقے کا دبدبہ ہے۔ بریلوی مسلمان اور مسلمانوں میں شیعہ گروپ ،دیوبندیوں کو پسند نہیں کرتے۔ جہاں بینی بابو کا متنازعہ بیان ہے وہیں ملائم سنگھ سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ اور آپ کی حکومت ان مبینہ بے قصور مسلم لڑکوں کو جیل سے چھڑانے کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ آپ قانونی عمل میں کیوں دخل اندازی کررہے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے صاف کہا ہے ملزم بے قصور ہے اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے ملائم یا یوپی سرکار کو نہیں۔ ان حالات میں اگر ملائم سنگھ کو آتنک وادیوں کا حمایتی بتایا جائے تو اس پر اتنی ہائے توبہ کیوں؟ وزیر پارلیمانی امور کملناتھ اور کانگریس ترجمان راشد علوی کے افسوس جتانے کے بعدبھی ملائم سنگھ یادو ناراض ہیں۔ اس بار وہ ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں دکھائی نہیں پڑتے۔ انہوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی تک اپنی شکایت پہنچا دی ہے جواب کا انتظار ہورہا ہے۔ سماجوادی پارٹی اس بار آر پار کی لڑائی کے موڈ میں لگتی ہے۔ دراصل کچھ کانگریسیوں کا خیال ہے کہ بینی نے ترپ کا پتتا چل کر ملائم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اترپردیش میں بابری مسجد گرائے جانے کے ملزمان میں سے ایک سابق وزیراعلی کلیان سنگھ کو سماجوادی پارٹی میں شامل کرنے کو بنیاد بنیا ہے۔ اسے کریدنے پر یوپی کا مسلمان بھی چڑھ جاتا ہے۔ کانگریسیوں کا خیال ہے کہ اس سے مسلمان ملائم سے دور ہوسکتے ہیں۔ سارا کھیل ہی اقلیتی ووٹوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ اس سیاسی لڑائی میں مسلمان استعمال ہورہا ہے۔ بھارت کے سپریم آئینی ادارے لوک سبھا کو گھسیٹا جارہا ہے۔ دیش کی اقتدار اعلی اور سرداری کی علامت پارلیمنٹ کو تماشہ گھر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟