3 پرائیویٹ بینکوں کے منی لانڈرنگ کے گورکھ دھندے کا پردہ فاش

بھارت نے مضبوط منی لانڈرنگ قانون تو بنا لئے لیکن بینکوں نے اس میں بھی تمام راستے نکال لئے ہیں۔ مشکل ہمارے دیش کی یہ ہے کہ قانون بعد میں بنتا ہے اس میں پنکچر پہلے ہوجاتا ہے۔نجی بینکوں کی منی لانڈرنگ سے وابستہ سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں دیش کا ریکارڈبیحد خراب ہے۔ پچھلے برس بھارت نے برطانیہ کے بینک ایچ ایس بی سی کے خلاف اسی طرح کے ایک معاملے کی جانچ کی تھی لیکن آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی بلکہ الٹے امریکہ نے ایسے ہی معاملے میں ایس ایچ بی سی پر تقریباًدو لاکھ ارب ڈالرکا جرمانہ ٹھونک دیا تھا۔ اب پھر آئی سی آئی سی آئی بینک، ایچ ڈی ایف سی اور ایکسس بینک پر منی لانڈرنگ یعنی کالی کمائی کو سفید کرنے کے سنگین الزامات لگے ہیں۔ یہ الزام ایک میگزین کوبرا پوسٹ نے اسٹنگ آپریشن ’ریڈ اسپائڈر‘ کے ذریعے لگایا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے پرائیویٹ سیکٹر کے تین بڑے بینکوں میں ہو رہی اس کالا بازاری کو اجاگر کیا ہے۔ اسٹنگ آپریشن کے ذریعے کچھ گھروں کی ریکارڈنگ کے فٹیج اور کچھ حصے جاری کئے گئے۔ کوبرا پوسٹ کے مالک انروپ بہل نے بتایا کہ ان بینکوں کی دیش بھر کی درجنوں برانچوں میں کھلے عام کالی کمائی کو سفید کرنے کا کام جاری ہے۔ بینک یہ سروس اپنے گراہکوں کو بھی دے رہے ہیں۔ یہ دیش کے منی لانڈرنگ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پورا لین دین اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ گراہکوں کو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے۔ اس سے سرکار کو کروڑوں روپے کے ٹیکس کا نقصان بھی ہورہا ہے۔ کوبرا پوسٹ کے مطابق بینک ایسے کرتے ہیں کالی کمائی کوسفید۔ گراہک کے گھر جاکر مشین سے گن کر نقدی لے جانا اور پھر رائلٹی گولڈ سمیت مختلف مالیاتی پروڈکٹس میں بغیر پین کارڈ کے اور کے وائی سی کے رقم کی سرمایہ کاری کرنا۔ رقم کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ کر بینامی کھاتوں کے ذریعے بیک چینل میں ڈالنا۔ رقم سفید ہونے کے بعد کھاتے میں بندکرنا۔ دوسروں کے کھاتے میں رقم ڈال کر اسے سفید کرنا اور بدلے میں دوسرے کھاتے داروں سے فیس لینا۔ گراہٹ کے کھاتے کو دکھائے بغیر رقم سے اپنے یا بینک کی دوسری برانچ سے ڈرافٹ بنوا کر گراہک کے نام سرمایہ کاری دکھانا۔ کروڑوں روپے نقد رکھنے کے لئے گراہکوں کو لاکر کی خصوصی سروس فراہم کرنا۔ این آر آئی اور اس کے کھاتے کے ذریعے رقم بیرونی ممالک میں بھی بھیجنے کی سہولت دی جارہی ہے۔ ان سیواؤں کو دیش بھر میں ایک ’اسٹینڈرڈ پوڈکٹ‘ کی شکل میں دستیاب کرایا جاتا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے منی لانڈرنگ کے اس دھندے میں ان بینکوں کے بڑے افسران کے شامل ہونے کا بھی الزام لگایا ہے ۔ ان بینکوں اور ان کے مینجمنٹ نے منظم طریقے سے ریزرو بینک کی گائڈ لائنس، انکم ٹیکس قانون ، فیما، کے وائی سی کامرس، بینکنگ قانون اور منی لانڈرنگ روک تھام قانون کے دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔ دیکھیں سرکار و دیش کے مالی ادارے ان ملزم بینکوں کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟