کیا ایک برس میں اکھلیش یادو عوام کی امیدوں پر کھرا اترے ہیں؟

اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی نے ریاست میں اپنی سرکار کا ایک سال پورا کرلیا ہے۔ 15 مارچ کو سپا سرکار نے اپنے اقتدار کا ایک سال تو پورا کرلیا ہے لیکن کسی بھی سرکار کی کارگذاری کا جائزہ لینا کافی نہیں ہوتا لیکن اتنا ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ حکومت کس سمت پر چل رہی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک برس میں اکھلیش یادو کی حکومت کی نہ تو کارگذاری تسلی بخش ہے اور نہ ہی ان کی سرکار کی ساکھ۔ والد ملائم سنگھ جتنی سخت محنت سے اترپردیش میں سپا کو اقتدار میں لائے اور لڑکے اکھلیش اتنی تیزی سے ہی عوام میں غیر مقبول ہورہے ہیں۔ وہ اب تک ایک نااہل لیڈرثابت ہوئے ہیں۔ سپا میں داغدار چہروں اور ورکروں کی لمبی فہرست ہے جس سے وہ پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں۔ بطور اپوزیشن پارٹی بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریہ کے مطابق اکھلیش یادو کی حکومت کا ایک سال مایوس کن رہا۔ الزام لگایا کہ بدامنی کے گھوڑے پر سوار یہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ثابت ہورہی ہے۔ خاص طور پر ریاست میں قانون و انتظام کے حالات مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک سال میں سرکار سے لوگوں کی جو توقعات تھیں ان پر سرکار کھری نہیں اتری۔ ابھی بھی لوگوں کو اکھلیش یادو سے امیدیں ہیں۔ یہ اس سرکار کی طاقت بھی ہیں اور اس کے پہلے سال میں کچھ مورچوں پر ناکام رہی تو چناؤ میں کئے گئے وعدوں میں زیادہ تر عمل کرنے کی پہل اس سرکار کا کارنامہ بھی ہے۔ قانونی و انتظام کے مورچے پر بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاست میں بدامنی کا دور کم نہیں ہوا ہے۔چھوٹے موٹے واقعات تو مایاوتی کے راج میں بھی ہوا کرتے تھے وہ ابھی بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ پچھلے تین سال میں بڑھے جرائم کے گراف کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جنتا میں اکھلیش یادو نے جو امیدیں جگائی تھیں وہ اب تک پوری نہیں ہوسکیں۔ مثال کے طور پر جو کرپشن مایاوتی کے دور میں تھا اس میں اضافہ ہی ہواہے جو کھدان افسران مایاوتی کے راج میں 50 گاڑی ریت پتھر نکلوانے کے لئے ایک لاکھ دس ہزار روپے لیتے تھے اس کا اب ریٹ اکھلیش یادو کی سرکار میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے ہوگیا ہے۔ پونٹی چڈھا خاندان کو جو دبدبہ مایاوتی کے دور میں تھا وہ اکھلیش سرکار میں بڑھا ہی ہے۔ ریاست میں دنگے فساد روکنے میں سرکار ناکام رہی ہے۔پولیس کا کردار مشتبہ رہا ہے۔ قانون و انتظام و فساد اترپردیش کی عوام کے لئے زیادہ تشویش کا باعث ہے بہ نسبت لیپ ٹاپ اور بے روزگاری بھتے سے۔ ویسے بھی لیپ ٹاپ جو لکھنؤ میں بانٹے گئے تھے وہ اب مارکیٹ میں بکنے آگئے ہیں۔ منگلوار کو وزیر اعلی اکھلیش یادو نے 12 ویں پاس طلبا و طالبات کو اپنے ہاتھوں سے لیپ ٹاپ مفت تقسیم کئے تھے اس طرح اب تک9995 لیپ ٹاپ بانٹے جاچکے ہیں۔ لیپ ٹاپ پانے والے کچھ طلبا و طالبات نے مارکیٹ میں جاکر بیچنے کی کوشش کرکے وزیراعلی کی اسکیم کو ہی پلیتا لگادیا۔ اکھلیش یادو کی سب سے بڑی پریشانی اس کے چاچا تاؤ ہیں۔ دو دن پہلے اترپردیش سرکار کا ایک اشتہار کچھ چنندہ اخباروں میں شائع ہوا تھا اس میں پانچ تصویریں گی تھیں سبھی ایک سائز کی تھیں۔ اکھلیش یا ملائم سنگھ کی تصویر پہلے نمبر پر بھی نہیں تھی اور نہ ہی باقی چہروں سے بڑی تھی۔ صاف ہے اترپردیش میں اقتدار کے کئی مرکز ہونے کی وجہ سے سرکار کے کام کاج میں فرق پڑ رہا ہے۔ اس کا سارا خمیازہ اکھلیش یادو بھگت رہے ہیں۔ لوگوں کو اکھلیش سے بہت امیدیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اکھلیش اس سے باہر نکلیں۔ اعدادوشمار کے نقطہ نظر سے پچھلا ایک سال کئی مورچوں پر خراب رہا ہے۔ فرقہ وارانہ تناؤں اور فسادات کے 27 واقعات ہوئے ۔متھرا، بریلی، لکھنؤ اور فیزآباد کے فسادات نے سرکار کے ماتھے پر داغ لگادیا۔ کنڈا کانڈ نے سرکار کے قانون و انتظام ٹھیک ہونے کے دعوے پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔ بجلی بحران سے نجات پانے کے لئے شام ہی میں مال بند کرنے اور اس کے بعد ممبران اسمبلی فنڈ سے ممبران کو گاڑی خریدنے کی اجازت دینے کا فیصلہ جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ جس کی واپسی سے اکھلیش لوگوں کی نظروں میں کمزور وزیر اعلی بنے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر سرکار کے کام کاج میں بار بار انگلی اٹھا رہے ہیں۔ پارٹی کے کچھ بڑے لیڈروں کا یکساں سرکار چلانا جنتا کو بھی راس نہیں آرہا ہے۔ دہلی کی جامعہ مسجد کے شاہی امام مولانا بخاری کی دھمکی کے بعد کبھی ان کے داماد کو ایم ایل سی بنانا اور ان کے کئی اور چہیتوں کو لال بتی دینے سے یہ تصور سامنے آیا کہ سرکار دباؤ میں جھک جاتی ہے۔ کمبھ حادثے کے لئے تکنیکی طور سے مرکزی حکومت ذمہ دار ہو لیکن عام لوگوں کے درمیان اس سرکار کے انتظامات پر بھی سوالیہ نشان لگا ہے۔ 15 مارچ 2012ء کو جب اکھلیش یادونے دیش کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے کم عمر کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیاتھا اس وقت ان کے سامنے یوپی کو بدلنے کی چنوتی تھی ۔ اس وقت ان کے ساتھ عوام کا جوش نئی امیدیں تھیں لیکن ٹھیک ایک سال بعد ان کی سرکار کے کام کاج عوام کی کسوٹی پر ہیں۔ آخر ایک برس کا وقت خاصا معنی رکھتا ہے اب لوگ سرکار کی کارکردگی سے نا خوش ہیں اور ان کی ناراضگی کا دور شروع ہوچکا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟