سونیا نے وہ کر دکھایا جو نہرو، اندرا ور راجیو نہ کرسکے

محترمہ سونیا گاندھی آج صرف کانگریس پارٹی کے مرکزی کردار میں ہیں نہیں ہیں بلکہ دیش کی سیاست میں سب سے زیادہ دخل رکھتی ہیں۔ آج سے15 سال پہلے جب14 مارچ 1988ء کو سیاست میں اتری تھیں تو شایدکسی نے سوچا نہ ہوگا کہ ان کا سفر اتنا لمبا ہوگا۔ آج وہ کانگریس پارٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ وقت تک پارٹی صدر کے عہدے پر فائض رہنے والی شخصیت بن چکی ہیں۔ وہ چار مرتبہ سب کی رضامندی سے اس عہدے پر چنی گئیں جو کام پنڈت جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نہیں کرسکے وہ ان کی بہو سونیا گاندھی نے کر دکھایا۔ ڈیڑھ دہائی تک کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے والی پہلے خاتون بن گئیں ہیں۔ آپ اٹلی میں پیدا ہوئیں اور اندرا گاندھی کی بہو بنیں اور مسلسل زوال کی طرف جا رہی کانگریس کو سونیا نے نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے دکھایا بلکہ اب ان کی قیادت میں مرکز میں پارٹی مسلسل 9 برس سے یوپی اے کی سرکار چلا رہی ہے۔ ان 15 سالوں میں کانگریس کا پورا اقتدار اپنے ارد گرد مرکوز رکھے رہی ہیں۔ سونیا نے اب آہستہ آہستہ اپنی ذمہ داری راہل گاندھی کو سونپنا شروع کردی ہے تو تنظیم کے اندر اور باہر سب کی نظریں پھر کانگریس پر لگی ہوئی ہیں۔ 16 ویں سال میں داخل ہوتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنا ان کے لئے آسان کام نہیں تھا اور انہوں نے پارٹی ورکروں کو بھی اس بات کا سہرہ دیا ہے کہ ان کی مدد سے ہی وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک طرح سے نبھا پائیں۔ سونیا کے سیاسی کیریئر میں مئی 2004ء میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انہوں نے اتحاد کے راستے کانگریس کومرکز میں کامیابی کے ساتھ اقتدار تک پہنچایا۔ موجودہ عہد کے لئے 2010ء میں وہ بلا اتفاق چنی گئی تھیں۔ اب ان کی میعاد 2015ء میں ختم ہوگی۔ دراصل پارٹی آئین میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق اب تین سال کے بجائے پانچ سال میں تنظیمی چناؤ کرانے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ 1998ء میں سونیا گاندھی نے سیتا رام کیسری سے ذمہ داری چھین کر پارٹی کی کمان سنبھالی تھی تب 127 سال پرانی یہ پارٹی اپنے سب سے بحران کے دور سے گزر رہی تھی۔ ہر چناؤ میں پارٹی ہار رہی تھی۔ ان کا غیر ملکی نژاد اشو چھایا رہا۔ شرد پوار نے اسی اشو پر الگ پارٹی بنا لی تھی۔ 1998-99 میں لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کی رہنمائی میں ہاری تھی۔ اس کے بعد انہوں نے پارٹی میں بڑی ردوبدل کی اور 2004ء میں کانگریس کی رہنمائی والی یوپی اے حکومت بنی اور سونیا گاندھی اس اتحاد کی چیئرپرسن بنیں۔ 2004ء میں اقتدار ملنے کے بعد ڈرامائی حالات میں انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ بھی قبول کرنے سے انکا کردیا اور ماہر اقتصادیات سے لیڈر بنے منموہن سنگھ کا نام دیش کے اس اہم ترین عہدے کے لئے آگے بڑھا دیا۔ وہ وزیراعظم تو نہیں بنیں لیکن قومی مشاورتی کونسل (این اے سی) کی چیئرمین بن کر حکومت اور تنظیم کی کمان پوری طرح سے خود سنبھالی ہوئی ہے۔ آج سونیا گاندھی دنیا کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ سیاسی طور سے طاقتور ہونے کے باوجود گذشتہ دو تین سال میں سونیا گاندھی کا اقبال دیش اور دنیا میں کمزورہوا ہے۔ صحت کے اسباب کی وجہ سے سرگرمی بھی کم ہوئی ہے ۔ کانگریس کی ساکھ کو بھی ہر سیکٹر میں دھکا لگا ہے۔ آج کل سیاسی تنازعہ بھی ان کے مائیکے کے ملک اٹلی سے چل رہا ہے۔ چاہے وہ ہیلی کاپٹر معاملہ ہو چاہے وہ اطالوی مرین کا ہو۔ اپوزیشن انہیں اس لئے بھی زیادہ اچھال رہی ہے کیونکہ یہ سونیا گاندھی کے پیدائشی ملک سے وابستہ ہے۔ سونیا گاندھی کے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج 2014ء میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی و اتحاد کو دوبارہ سے اقتدار میں لانا ہے۔ منفی حالات میں یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اب راہل بھی پوری طرح میدان میں اتر گئے ہیں اور ماں بیٹا مل کر اس مقصد کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔ سونیا کی ایک بات خاص ہے وہ بیشک 15 برسوں سے کانگریس کی صدر محترمہ ہیں لیکن ایسے کانگریسی انگلیوں میں گنائے جاسکتے ہیں جو اصل سونیا گاندھی کو جانتے ہیں۔ وہ سنتی زیادہ ہیں بولتی بہت کم ہیں شاید یہ ہی ان کی کامیابی کا راز ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟