مودی سرکار کی اچھی انتظامیہ کے جواب میں نتیش کا ہندوستانی ماڈل

دہلی کی سڑکیں ایتوار کی صبح ایسے ہی بہاریوں سے لبا لب تھیں۔ جنتا دل (یو) کے جھنڈے تلے اور نتیش ۔ شرد کے کٹ آؤٹ کے ساتھ بسوں سمیت تمام گاڑیوں پر لدے اور پیدل مارچ کرتے بہار کے لوگوں کا ایک ہی نعرہ تھا’’ہمیں بھیک نہیں ادھیکار چاہئے، خصوصی ریاست کا درجہ چاہئے‘‘ سبھی لوگوں کے قدم رام لیلا میدان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ قریب ساڑھے بارہ بجے نتیش کمار رام لیلا میدان میں اسٹیج پر پہنچے۔ کچھ دیر بعد جنتا دل (یو ) کے قومی صدر شرد یادو آگئے۔ رام لیلا میدان میں جنتا دل(یو) کی ادھیکار ریلی دراصل پہچان و خواہشات اور سودے بازی کی ریلی رہی۔ یہ سب ہوا بہار کو آگے بڑھانے کا حق دلانے کی خاطر۔ حالانکہ اس میں نتیش کمار کا نجی ایجنڈابھی شامل تھا۔این ڈی اے کے مرکز پر کھڑے دو وزیر اعلی نے ترقی کے اپنے اپنے ایجنڈے پیش کر 2014ء میں لیڈر شپ کے لئے اپنی اپنی بے اعلان دعویداری پیش کردی ہے۔ نریندر مودی نے اپنے گجرات کے کم سرکار کے زیادہ بہتر انتظامیہ کے وکاس ماڈل کو دیش کے لئے سب سے اچھا ماڈل قراردیا ہے۔24 گھنٹے کے اندر ہی نتیش کمار نے پچھڑی ریاستوں کو وکاس کی قومی دھارا میں لانے والے کثیر ڈولپمنٹ ماڈل کو اصلی ہندوستانی ماڈل بتاکر مودی سے بری لکیر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی داؤ پیچوں میں مودی ماڈل کو این ڈی اے سے باہر تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہوسکتی ہے لیکن نتیش نے زیادہ تر ریاستوں کی دکھتی رگ کو چھوکر این ڈی اے کے باہر اپنی پہنچ بنانے کی کوشش کی ہے۔ دہلی کے اپنے پہلے بڑے سیاسی شو میں نتیش کمار نے کھلے متبادل کے ساتھ مستقبل کی سیاست کے تجزیئے بھی رکھ دئے۔ انہوں نے کانگریس کے خلاف تو کچھ نہیں بولا لیکن پچھڑی ریاستوں کی وکالت کر اپنے لئے نئے دوست ضرور تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں خاص ریاست پر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد دیش و مرکز کو دلیل اور طاقت کا احساس کرانا تھا۔اس کے لئے فطری طور پر کوچ دہلی ہی ہونا تھا۔ اپنے صوبے کے لئے خصوصی ریاست کا درجہ مانگنے کی آڑ میں درپردہ طور سے وہ دہلی میں مرکز کی سرکار کو چنوتی دے گئے۔ نتیش نے کہا اگر دہلی میں بسے پسماندہ علاقوں کے تمام لوگ متحدہ ہوجائیں تو دہلی انہیں پسماندہ لوگوں کی ہوگی۔ دہلی میں بہار اور پوروانچل واسیوں کی بھاری تعداد کے بوتے جنتا دل(یو) نے دہلی اسمبلی چناؤ میں بھی اپنی مضبوط دعویدار پیش کردی ہے۔ نتیش نے کہا دہلی میں رہ رہے بہار کے40 لاکھ ووٹر دہلی کے اقتدار میں اہم کردار نبھانے کے حقدار ہیں اس کے بوتے پر انہوں نے اس سال کے آخر میں ہونے والے دہلی اسمبلی چناؤ میں جنتادل (یو) کے امیدواروں کو بھی اتارنے کا اعلان کردیا۔ نریندر مودی کو لیکر نتیش کمار کی اپنی نا اتفاقی رہی ہے جس کے سبب کئی بار جنتادل(یو) اور بھاجپا کے رشتے ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گئے لیکن دونوں نے ہی ہوشیاری سے دوستی کو برقرار رکھا۔ ایتوار کی ریلی میں نتیش نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا جس سے لگے کہ وہ این ڈی اے سے الگ ہونے کا ارادہ بنا رہے ہیں۔ ادھیکار ریلی کے بعد دیش کی سیاست میں نئے تجزیوں کا آغاز ہوگیا ہے یعنی جنتادل(یو) پر کانگریس ڈورے ڈال سکتی ہے لیکن کانگریسی لیڈروں نے نتیش کو خصوصی ریاست کے اشو پر سیاست نہ کرنے کی جس انداز میں نصیحت دی اس سے انہیں سیاسی پس منظر بدلنے کی قیاس آرائیاں شروع ہوجائیں گی۔ ساتھ چھوڑتے ساتھیوں سے پریشان یوپی اے بھی درجہ ملنے پر دوست بنانے کو تیار ہے۔نتیش کا ساتھ پانے کیلئے مرکز جھکنے کی بے وقوفی کیوں کرے گا جو نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت کے چلتے بھاجپا سے پیچھا چھڑانے کے صحیح موقعہ کی تلاش میں ہے تو ان دونوں موقعوں کا میل بھی ہوسکتا ہے۔ ریلی میں نتیش کی منشا پر بھی کچھ سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ 
کیا بہار کے وقار اور ڈولپمنٹ کا ٹھیکا اکیلے ایک ہی حکمراں پارٹی کا ہے؟ جنوب مغربی ریاستوں سے سبق لیتے ہوئے سبھی پارٹیوں کو اسٹیج پر لاکر اچھی باتیں اور بھی زور دار طریقے سے کہی جاسکتی تھیں۔ یہ مشکل بھی ہے تو اس اتحادی بھاجپا کی نمائندگی کیوں نہیں کروائی گئی جس کے ساتھ نتیش 7 سال سے حکومت چلا رہے ہیں؟ ریاست کی ساکھ اور ترقی اور پہچان بنانے کا اس کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس کے بغیر نتیش کی کوشش اپنے ہی گھیرے میں قومی سطح پر مودی کا متبادل ہونے کی نجی خواہشات زیادہ لگتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟