تمل مسئلے پر بری پھنسی یوپی اے سرکار ادھر کنواں تو ادھر کھائی

تملناڈو کی سیاسی پارٹیوں کی سیاسی فائدہ اٹھانے کی دوڑ نے سری لنکائی تملوں کے مسئلے پر ریاست میں جذباتی ماحول بنا دیا ہے۔ خود کوتملوں کا ہتیشی ظاہرکرنے کے جتن میں ڈی ایم کے نے مرکزی سرکارسے حمایت واپس لے کر یوپی اے ۔II کو زبردست بحران میں ڈال دیا ہے۔ دراصل اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں سری لنکا کے خلاف امریکی ریزولیوشن پچھلے سال کی بہ نسبت مشکل ہوسکتا ہے جس میں سری لنکا میں خانہ جنگی کی جانچ کی مانگ بین الاقوامی کمیشن میں ہوسکتی ہے۔ پچھلے برس کے ریزولیوشن میں 26 سال سے چلی آرہی سری لنکائی تملوں کے خلاف جنگ کے خاتمے کے بعد سری لنکا میں اس کے نفع نقصان کیلئے جوابدہ بنانے پر زور دیا گیا تھا جس کے حق میں بھارت کو ووٹ ڈالنے میں کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی لیکن ابھی یوپی اے کی اتحادی جماعت ڈی ایم کے اور تملناڈو میں حکمراں انا ڈی ایم کے جس طرح سے سرکار پر دباؤ بنا رہی ہیں اس سے اس کی مشکلوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کروناندھی چاہتے ہیں کہ بھارت ترمیمی ریزولیوشن لائے اور اس میں تملوں کے قتل عام کے لئے سری لنکائی فوج اور انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ چار برس پہلے راج پکش کی حکومت میں لبریشن ٹائیگرز کے خلاف جارحانہ مہم چلائی تھی جس میں ہزاروں بے قصور تمل مارے گئے تھے۔ اس مہم میں جنگ کی منظوری کے تقاضوں کو بھی لانگ دیا گیا تھا۔ اس کا ایک ثبوت حال ہی میں چینل 4 کے ذریعے جاری ان تصویروں میں نظر آیا جس میں دکھایا گیا تھا کے پربھاکرن کے 12 سال کے بیٹے کو کس طرح سے قریب سے گولی مار دی گئی تھی۔ سری لنکا میں تملوں کی حالت پورے دیش میں تشویش کا باعث ہے۔ بہتر ہوتا کے تملناڈو کی ساری سیاسی پارٹیاں مرکز کے ساتھ بیٹھ کر دیش کا ایک یکساں موقف اپناتیں لیکن یہاں تو تمل ہتیشی بننے کی دوڑ لگی ہوئی ٹھیک ہے کہ ہندوستانیوں کے مفاد کی پرواہ بھارت سرکار کو کرنی چاہئے اور ان کے حق میں آواز اٹھانی چاہئے لیکن دوسرے دیش کے معاملے میں کافی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ صاف ہے کہ منموہن سنگھ سرکار کے سامنے سخت پریشانی ہے لیکن کوئی ذمہ دار حکومت بھیڑ کی ذہنیت کی رو میں نہیں بہہ سکتی جسے بھڑکانے کی کوشش میں تملناڈو کی پارٹیاں شامل دکھائی پڑتی ہیں۔ خارجہ پالیسی سے متعلق قدم میں کئی داؤ پیچ ہوتے ہیں جن پر دور رس نقطہ نظر اور قومی نفع نقصان کی دور رس پالیسی اپنانی پڑتی ہے۔ کسی مختار دیش کے اندر بین الاقوامی مداخلت کی کس حد تک گنجائش ہو یہ پیچیدہ سوال ہے۔ انسانی حقوق بنام قومی سرداری ایسا اشو ہے جس میں قلیل نقطہ نظر اور دوررس مفاد کی بنیاد پر رخ طے کرنے میں طویل وقت بھارت کو بھاری پڑسکتا ہے۔اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی کم اہم نہیں کے چین ، روس، پاکستان ، ایران جیسے ملکوں نے سری لنکا کی حمایت لی ہے پھر بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ باہمی رشتوں میں فیصلے صرف سیاسی مفادات کو ذہن میں رکھ کر نہیں لئے جاتے۔ویسے بھی ماضی میں لبریشن ٹائیگرز کو لیکر غلطیاں کم نہیں ہوئیں جس کا خمیازہ ہمیں راجیو گاندھی کے بے رحمانہ قتل کی شکل میں بھگتنا پڑا تھا۔ پھر بھی بھارت کو دھیان رکھنا چاہئے کہ ہند برصغیر میں چین کی بڑھتی دلچسپی اور سری لنکا کے ساتھ اس کی قربت ہمارے دوررس مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر ہم پرانے دشمن پاکستان کو کیوں بھولتے ہیں جو سری لنکا کو برابر اکسارہا ہے اگر بھارت نے امریکی ریزولیوشن کی حمایت کی تو وہ سری لنکا اقوام متحدہ میں اور دیگر بین الاقوامی اسٹیج پر کشمیر کا اشو اٹھا دے۔ ایسی ایک بانگی ہم مالدیپ میں دیکھ رہے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ بھارت غلط اور ٹال مٹول والی خارجہ پالیسی کے سبب تمام پڑوسی ملک نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا ، پاکستان ہم سے ناخوش چل رہے ہیں۔ یقینی طور سے خارجہ پالیسی سے متعلق کچھ مسئلے ایسے ہوتے ہیں جن پر علاقائی پارٹیوں کو بھروسے میں لینا ضروری ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے دباؤ کے آگے جھک جائیں۔ ڈی ایم کے کا دباؤ تو ایک طرح سے بلیک میلنگ ہے اور اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے لیکن یوپی اے ۔II کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دباؤ کے آگے جھک جاتے ہیں۔ اس بار بھی حالت انتہائی تشویشناک ہے سرکار کے لئے ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟