جو بادل گرجتے ہیں برستے نہیں دھمکی کم بھپکی زیادہ

یہ تو ہونا ہی تھا ۔ تاملناڈو میں جس طرح کی سیاست جاری تھی اس کے بعد ڈی ایم کے کا مرکزکی یوپی اے حکومت سے حمایت واپس لینا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ پہلی بار نہیں جب ڈی ایم کے نے یوپی اے سرکار کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہو۔ پچھلی بار قریب آدھا درجن حمایت واپسی کی دھمکیوں کی طرح اس بار بھی حکومت کے سنکٹ موچکوں کو لگتا ہے کہ آخر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا ۔ ویسے بھی سپا بسپا اکثر اس حکومت کی بے ساکھی بننے کے لئے آگے رہتی ہیں۔ اس لئے اسے دھمکی کم بھپکی زیادہ مانا جانا چاہئے۔ سماجوادی پارٹی کے رام گوپال یادو کا صاف کہنا ہے کہ ڈی ایم کے ناٹک کررہی ہے۔ہاں اتنا ضرورہے کہ اتحاد پر چلنے والی منموہن سنگھ کی یہ یوپی اے سرکارتھوڑے دباؤ میں ضرور آگئی ہے۔ اس کی اہم اتحادی جماعت ڈی ایم کے نے سری لنکا میں تملوں پر ہونے والے مظالم کے اشو پر سرکار کے ٹال مٹول رویئے کے خلاف اس سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ دراصل سری لنکا میں تملوں کی بدحالی کا مدعا تاملناڈو میں اکثریتی تملوں سے سیدھے جذباتی طور سے جڑا ہے۔ پچھلے سال خوردہ سیکٹرمیں ایف ڈی آئی کو منظوری دینے کے مسئلے پر سرکار نے ناطہ توڑ لینے والی ترنمول کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے جب یوپی اے سرکار کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ نمبروں کی طاقت کے نقطہ نظر سے کانگریس بیشک جوڑ توڑ کر فوری طور پر عائد خطرے کو ٹال دے لیکن اقتصادی اصلاحات سے متعلق اس کے فیصلوں اور کچھ انتہائی اہمیت کے حامل قانون پاس کروانے میں بڑا فرق پڑنا طے ہے۔ لوک سبھا میں ڈی ایم کے کے 18 ممبر ہیں۔ سپا۔ بسپا کی وجہ سے یہ سرکار بچ جائے گی۔ دراصل پچھلے کچھ عرصے سے تملناڈو میں جس طرح کی سیاست چل رہی تھی اس سے دیش کی خارجہ پالیسی پر ایک غلط قسم کا دباؤ بن رہا تھا۔ تملناڈو میں سرکار بناتے ہی ڈی ایم کے نیتا جے للتا نے اسمبلی میں پرستاؤ پاس کرواکر مرکزی سرکار سے اپیل کی کے سری لنکا پر اقتصادی پابندی لگائی جائے اور اس کے بعد انہوں نے سری لنکا کے کھلاڑیوں کو مقابلے میں حصہ لینے کے لئے تملناڈو بھی نہیں آنے دیا۔ ابھی تک تملناڈو کی کئی چھوٹی پارٹیاں جذبات کو بھڑکانے کے لئے جو مطالبات اٹھاتی رہی ہیں انہیں جے للتا سرکار نے پورا کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں ڈی ایم کے کی بھی یہ مجبوری ہوگئی ہے وہ کوئی ایسا بڑا قدم اٹھائیں جسے تمل مفادات کے لئے دی گئی قربانی کی طرح جنتا کے سامنے پیش کیا جاسکے اور یہ موقعہ اسے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں سری لنکا کے خلاف آئے امریکی پرستاؤ نے اسے دے دیا۔ ڈی ایم کے چیف کروناندھی جو شاطر سیاستداں مانے جاتے ہیں ایسے بلیک میلنگ کے موقعے تلاشتے رہتے ہیں۔ ایک طرف تو مرکزی سرکار کو بلیک میل کر کچھ اقتصادی و دیگر قدم اٹھائیں دوسری طرف کانگریس کو یہ بھی اشارے دے رہے ہیں کہ تملناڈو اسمبلی چناؤ اس بار وہ اکیلے لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ کانگریس سے کوئی اتحاد نہیں کریں گے۔ بسپا اور سپا تو سودے بازی کے لئے مشہور ہے۔ انہیں اس سرکار کی دکھتی رگ ہاتھ آنی چاہئے، بس پھر کیا؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈی ایم کے کے یوپی اے سرکار سے ہٹتے ہی کانگریس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ حمایت واپسی کے بعد پہلے ہی دن کانگریس صدر سونیا گاندھی کو سپا چیف ملائم سنگھ یادو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ملائم سنگھ کو کوسنے والے بینی پرساد ورما کو شارے عام معافی مانگنی پڑی۔ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کو الگ راگ الاپنے والی اتحادی پارٹی این سی پی چیف شرد پوار کی منت کرنی پڑی اور تمل مسئلے پر آل پارٹی بلانے پر مجبور ہونا پڑا۔ پہلے ہی دن اتنی ذلت جھیلنے کے بعدبھی کانگریس نہیں جانتی کہ وینٹی لیٹر پر آچکی منموہن سنگھ سرکار اب کتنے دن اور چلے گی۔ اب مرکز کی کانگریس سرکار پوری طرح سے باہری حمایتیوں پر منحصر ہے ، خاص طور پر سپا کی مہربانی پر ہی اسکا وجود ٹکا ہے اور کسی کو یہ پتہ نہیں کے ملائم یا مایاوتی کب بیساکھی کھینچ لیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟