پاک پرستاؤ، شرارت کی انتہاہوگئی

آتنک واد کو لیکر ٹال مٹول والا رویہ اختیارکرنے کے الزام پاکستان پر لگتے رہے ہیں۔ جب بھی دہشت گرد جماعتوں کو پاکستان سرکار و فوج سے مدد ملنے کی بات کہی گئی ہمیشہ پاکستان کی جانب سے یہ ہی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ان جہادی گروپوں کا سرکاری سسٹم سے کوئی لینا دینا نہیں اور جو بھی آتنک ہو رہا ہے وہ نان اسٹریٹ ایکٹر کررہے ہیں۔ لیکن اب تو پاکستان کی پارلیمنٹ خودایک دہشت گرد کی حماییت کررہی ہے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان نیشنل اسمبلی نے ایک ریزولیوشن پاس کر افضل گورو کو پھانسی دئے جانے کی مذمت کی ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کی کئی تنظیمیں افضل گورو کو پھانسی دینے پر ناراضگی جتا چکی تھیں۔ یہ ہی نہیں اسمبلی نے یہ بھی مطالبہ کرڈالا کے اس کی لاش کو اس کے گھروالوں کو سونپا جائے۔ افضل گورو ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کا گنہگار تھا۔ سالوں جیل میں بند رہا اور آخر میں کہیں سے معافی نہ مل پانے کے سبب اسے پھانسی دی گئی۔ وہ بھارت کا شہری تھا۔ بھارت میں جتنے بھی دہشت گرد حملے ہوئے اس کے تار پاکستان سے سیدھے جڑتے تھے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس سے انکار کیا۔ اب جب پارلیمنٹ جیسی دیش کی آئینی سرداری کی علامت پر حملے کے ایک گنہگار کو باقاعدہ برسوں مقدمے کے بعد سزا سنائی گئی تو پاکستان کو اعتراض کیوں؟ بدقسمتی کا پہلو یہ بھی ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کی مذمت کا ریزولیوشن پاکستان کی پارلیمنٹ میں پاس ہوا، جو وہاں کے پورے عوام کی نمائندگی کرنے والا آئینی ادارہ ہے۔ کیا اس کا مطلب ہم یہ نکالیں کے پاکستان کی پوری عوام کی نمائندگی کرنے والا یہ ادارہ اسلامی دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے؟یقینی طور سے یہ بھارت کی اندرونی و خود مختاری کے معاملوں میں صریحاً مداخلت ہے۔پاکستان آخر ایک ہندوستانی شہری اور سپریم ادارے عدلیہ کے فیصلے کی مذمت کے لئے اپنی پارلیمنٹ میں ریزولیوشن کیسے پاس کرسکتا ہے؟ پاکستان نیشنل اسمبلی میں پاس ریزولیوشن جمعیت علمائے اسلام کے چیف مولانا فضل الرحمان نے پیش کیا تھا، جو کشمیر پر وہاں کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ اس ریزولیوشن میں افضل کی پھانسی کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی اس پھانسی کے چلتے کشمیر میں پیدا ہوئی حالت پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اس پر بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ پاکستان کو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اسمبلی میں یہ پرستاؤ سرینگر کے باہری علاقے میں ہوئے سی آر پی ایف کیمپ پر فدائی حملے کے ایک روز بعد پاس ہوا۔ دونوں واقعات میں کوئی رشتہ ہو یا نہ ہو لیکن صاف ہے کہ پاکستان پارلیمنٹ کی دلچسپی کشمیر مسئلے کو اچھالے رکھنے میں ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے میں کوتاہی نہیں کرے گی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ نے جمعہ کو اتفاق رائے سے ایک پرستاؤ پاس کر پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پالریمنٹ مانتی ہے یہ ریزولیوشن بھارت کے اندرونی معاملوں میں پاکستان کے ذریعے سیدھی مداخلت ہے جس کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر اور پاک مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ حصہ بتایا۔ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعے اٹھایا گیا یہ قدم اپنے دیش کی سرداری کو بچائے رکھنے کی صرف ایک’’زبانی‘‘ کوشش ہے۔ مگر پاکستان نے جو کیا وہ بھارت کی سرداری پر سیدھا حملہ ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اس لئے ضروری ہے کہ بھارت اب پاکستان کے خلاف کچھ سخت قدم اٹھائے۔ بھارت کو پاکستان سے ہر طرح سے رشتوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ پاکستان سے تجارتی تعلق بھی ختم کرنے پر سوچا جائے۔ کھیل مقابلے ، پاکستانی گلوکاروں پر بھی پابندی فوراً لگنی چاہئے۔ پاکستان کو ایک بار سمجھانا ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے نظریئے پر غور کرے۔ بھارت پاک باہمی رشتے تبھی لائن پر آسکتے ہیں جب پاکستان بھارت کے خلاف زہر اگلنے بند کرے۔ ورنہ لچیلہ پن نہ صرف ہماری سکیورٹی فورسز کا حوصلہ گرائے گا بلکہ دہشت گردوں کا حوصلہ بھی بڑھائے گا۔ یہ دیش کی سلامتی کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟