راجہ کولندرعرف رام نرنجن کا رونگٹے کھڑے کرنے والا کیس

یہ کلجگ کا دور ہے اس دور میں بربریت ،ظلم اور غیر انسانی حرکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ کچھ آدمی تو کہنے کو انسان ہوتے ہیں لیکن برتاؤ میں وہ جانور سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ راجہ کولندر عرف رام نرنجن کا سامنے آیا ہے۔ صحافی دھریندر سنگھ قتل کا راز نہ کھلتا تو رام نرنجن عرف راجہ کولندر کا پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنے لوگوں کو کاٹ کر ان کا بے رحمانی قتل کرکے ان کے سر گھر میں سجاتا ہے۔مگر دھریندر کے قتل کے معاملے میں کیج گنج پولیس پر دباؤ بنا تو پولیس حرکت میں آگئی اور پھر معاملے کی پرتیں کھلنے لگیں اور وہ ایسی کھلیں کہ پولیس افسروں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ راجہ کولندر عام یاشاطر قاتل نہیں بلکہ آدم خور نکلا۔ راجہ کولندر نے دھریندر کا قتل 14 دسمبر2002ء کو کیا تھا ۔ اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ صحافی دھریندر کو اس کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے ، وہ کبھی بھی اس کی کرتوت اخبار میں چھاپ کر اس کا کھیل ختم کرسکتا ہے۔ دھریندر کے قتل کی تفتیش کرنے والے اس وقت کے ایس او سری نارائن تیواری نے دھریندر کے موبائل سے اس کی آخری کال راجہ کولندر کی بیوی پھولن دیوی کے موبائل پر ہوئی تھی۔ پولیس راجہ کولندر کے فارم ہاؤس پہنچی تو دھریندر کا موبائل چارجر اور بائک برآمد ہوگئی۔ پھر پولیس نے کولندر سے سختی سے پوچھ تاچھ کی تو اس نے جو باتیں اگلیں اس سے سب کی روح کانپ گئی۔ فارم ہاؤس کی پختہ تلاشی لی گئی تو وہاں سے درجن بھر سے زیادہ دھڑ ملے۔ دھریندر کے دھڑ کو اس وقت مدھیہ پردیش کی ایک جھیل میں پھینکا گیا تھا جبکہ اس کے باقی حصے کو فارم ہاؤس میں چھپایا گیا تھا۔ دھریندر کے قتل سے پہلے کولندر نے جو بھی قتل کئے تھے ان میں کہیں اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تھی۔ راجہ کولندر نے پولیس کو جو بیان دیا اس کے مطابق وہ انسانی بھیڑیا بن چکا تھا۔ قتل کرنے کے بعد وہ دھڑ کو سر سے الگ کردیتا ، پھر کھوپڑی کو ابال کر پی جاتا۔ خون پینے کی بات تو اس نے سرسری طور پر لیتے ہوئے بتایا جیسے خون نہ ہو کوئی سوپ ہو۔ کسی کی گاڑی بک کراتا اور جنگل میں لے جاکر مار دیتا پھر لاش کو لیکر فارم ہاؤس آتا ۔ فارم ہاؤس پر اطمینان سے دھڑ سے سر کو الگ کرتا اور پھر دھڑ کو جنگل میں کہیں دور پھینک آتا مگر سر کو بڑی حفاظت سے فارم ہاؤس میں اس ڈھنگ سے رکھتا کئی لوگوں کا قتل اس نے صرف اس لئے کیا تھا کیونکہ وہ اس کی عزت کسی راجہ کی طرح نہیں کرتے تھے۔ ان سے اس کی شان میں کوئی گستاخی ہوئی تھی۔سروں کو ابال کر پینے کے بعد کولندر انہیں رنگ دیتا تھا۔ قتل کے بعد ذات کی بنیاد پر انہیں الگ الگ رنگوں سے رنگتا تھا۔کولندر سی او ڈی میں کلاس IV کا ملازم تھا۔جمعہ کو الہ آباد میں اپرسیشن جج محتاب احمد نے کولندر کو صحافی دھریندر کے قتل کے معاملے میں قصوروار پایا اور اسے عمر قید کی سزا کے ساتھ17 سے12 ہزار روپے جرمانہ ٹھونکا ۔ سماعت کے دوران جج صاحب نے وکیل دفاع کی یہ دلیل مسترد کردی کہ یہ قتل ریئر اسٹیٹ یعنی غیر معمولی حالات میں آتا ہے۔ ایسے جانور کو ہماری رائے میں اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسے تو سرے عام چوک پر پھانسی پر لٹکا دیا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟