بیشک نمبروں کی طاقت میں سرکار جیت گئی لیکن یہ اس کی اخلاقی ہار ہے

بیشک منموہن سنگھ سرکار نے ایف ڈی آئی پر لوک سبھا میں نمبروں کی طاقت کے کھیل میں کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن صحیح معنوں میں یوپی اے سرکار کی لوک سبھا میں ہار ہوئی ہے۔ کہنے کو تو اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کی جانب سے پیش ریزولیوشن کہ سرکار ملٹی برانڈ خوردہ میں51 فیصدی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے سے متعلق اپنے فیصلے کو واپس لے۔18 کے مقابلے253 ووٹوں سے گر گیا۔ لیکن دو دن کی بحث نے اتنا ضرور صاف کردیا کہ یوپی اے سرکار جیتی لیکن پارلیمنٹ ہاری۔ بحث میں18 پارٹیوں کے 22 ممبران نے حصہ لیا جبکہ کل چار پارٹیوں نے ایف ڈی آئی کی حمایت کی۔ اگر14 پارٹیاں جنہوں نے ایف ڈی آئی کی مخالفت میں تقریر کی ان کی تعداد جوڑی جائے تو یہ تعداد 282 کے آس پاس بیٹھتی ہے جبکہ جن پارٹیوں نے اس کے خلاف اپنے نظریات رکھے ان کی تعداد224 کے قریب بنتی ہے۔ دو دن کی بحث میں میری نظروں میں ہیرو تو بھاجپا کی لیڈر سشما سوراج ہی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف ایف ڈی آئی کے مثبت پہلو ایک ایک کرکے گنائے بلکہ حکمراں فریق کے مقررین کی دلیلوں کی ہوا نکال دی ہے۔ یوپی اے سرکار کی لاج سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی میں ووٹنگ سے ٹھیک پہلے ایوان سے واک آؤٹ کرکے بچائی۔ دیکھا جائے تو قاعدے کے مطابق ان دونوں پارٹیوں نے بھی ایک طرح سے ایف ڈی آئی کی مخالفت کی۔ اگر حمایت کرنی ہوتی تو پولنگ میں ریزولیوشن کے خلاف حکمراں فریق کے ساتھ ووٹ دیتے اور ان دونوں پارٹیوں کی ایسا کرنے کے پیچھے کیا مجبوری ہے یہ سب کو پتہ ہے۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے تبصرہ کیا یہ سب جوڑ توڑ سے ممکن ہوپایا ہے۔ یہ ایف ڈی آئی کی جیت نہیں بلکہ سی بی آئی کی جیت ہے۔ ممتا نے کہا اکثریت کے لئے ضروری نمبر271 کے بجائے ایوان کی طاقت کی بنیاد پر سرکار کے پاس حمایت صرف 253 ممبروں کی تھی۔ پھر سے ثابت ہوگیا ہے کہ سرکار اقلیت میں ہے۔ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ سرکار نے جوڑ توڑ سے لوک سبھا میں نمبر جٹا لئے ہیں اب اسے جنتا جواب دے گی۔ تکنیکی طور پر بھلے ہی جیت حاصل کرلی ہو لیکن اخلاقی طور پر یہ سرکار کی ہار ہے۔ سی بی آئی لیڈر گورو داس داس گپتا کا رد عمل والمارٹ کی بہتری کے لئے سرکار دیش کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ غیر ملکی کمپنیوں کے لئے بھارت کو سب سے پسندیدہ جگہ بنانے کے اشارے ہیں۔ این سی پی لیڈر پروفل پٹیل کا کہنا تھا کہ کوکاکولا نے پارلے برانڈ تھمس اپ کو لے لیااور اسے کوکا سے جوڑنے کی کوشش کی تھی لیکن آج بھی بھارت میں تھمس اپ کوک سے زیادہ مشہور ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اسے سرکار کے فیصلے کو ملی پارلیمنٹ کی منظوری بتایا ہے جبکہ منیش تیواری نے کہا یہ اصلاحات کی جیت ہے اس سے معیشت مضبوط ہوگی۔ لالو جی نے اپنے چٹکی بھرے انداز میں کہا کہ (بھاجپا نیتا) وہ غیر ملکی گاڑیوں میں چلتے ہیں لیکن ایف ڈی آئی پر مخالفت کرتے ہیں۔ شراب پینے والوں اڈوانی جی سے پوچھو کے وہ ٹوئٹر کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟ اب سب کی نظریں راجیہ سبھا پر لگی ہوئی ہیں۔ لوک سبھا میں تو جوڑ توڑ چل گیا، راجیہ سبھا میں یہ فارمولہ کامیاب رہے گا اس میں شبہ ہے۔ راجیہ سبھا کا حساب کتاب ایسا ہے کہ سپا اور بسپا سرکار کے حق میں ووٹنگ کریں گے یا پھر واک آؤٹ کریں گی۔ دوسری سرکار کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گی۔ قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں کہ بسپا (15 ممبران) سرکار کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میں بھی سرکار طاقت کے نمبروں میں کامیاب رہے گی۔ جمہوریت میں اپوزیشن پارٹیاں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتیں۔ اپوزیشن کو اس بات کی داد دینی ہوگی کہ ان کا کوئی ممبر ٹوٹا نہیں۔ لیفٹ پارٹیوں نے بھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ فرقہ پرست بھاجپا کے ساتھ سرکار کے خلاف ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اب تو فیصلہ جنتا کو کرنا ہے۔ منموہن سرکار ہر حالت میں ایف ڈی آئی لائے گی۔ اس نے تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!