مودی اپنی سیاسی زندگی کا سب سے اہم چناؤ لڑ رہے ہیں

گجرات اسمبلی چناؤ کی جتنی اہمیت اس مرتبہ ہے اتنی شاید کبھی پہلے نہیں ہوا کرتی تھی۔ پورے دیش کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ دراصل بی جے پی خاص کرنریندر مودی حمایتیوں نے اسے اس شکل میں پروجیکٹ کیا ہے کہ گجرات کی سیاست سے زیادہ قومی سیاست کے لئے اہم ہے۔ اس لئے گجرات اسمبلی چناؤ اس مرتبہ کانگریس کے لئے کم نریندر مودی کے لئے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ گجرات میں جیسے مودی کے لئے اپنے وقار کی لڑائی لڑی جارہی تھی ویسی نہیں اس بات کا بھاجپا کی سینئر لیڈر شپ اور خود پارٹی کو بھی احساس ہوچکا ہے۔ پارٹی کو کانگریس سے اتنا ڈر نہیں جتنا اسے اپنی پارٹی کے اندرسے ہے۔ اسے سابق وزیر اعلی کیشوبھائی پٹیل سے بھی اتنا ڈرنہیں لیکن جب سنگھ کے متوقع آر ایس ایس ورکر کیشو بھائی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو یہ ضرور مودی کے لئے تشویش کا سبب بن جائے گا۔ اس لئے مرکزی بھاجپا لیڈر شپ نے اب دورخی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک تو گجرات کو جنرل اسمبلی تک محدود نہ کرنا بلکہ اس کی قومی اہمیت کا دعوی کرنا۔ اب تک پارٹی کے لیڈر اور خودنریندر مودی اشارے اشارے میں یہ بات کرتے تھے لیکن اب نیتا کھل کر نریندر مودی کو ہونے والے وزیراعظم کی شکل میں پروجیکٹ کرنے لگے ہیں۔ گجرات اسمبلی چناؤ پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کی مانیں تو کیشو بھائی کی پارٹی گجرات پریورتن پارٹی کی جانب سے سب سے زیادہ چیلنج سوراشٹر علاقے میں مل رہا ہے۔ سوراشٹر علاقے میں پڑنے والی 45 سیٹوں میں سے کم سے کم 17-18 سیٹوں پر گجرات پریورتن پارٹی کے امیدواروں کے ذریعے اب تک جس طرح کی چنوتی دی جارہی ہے وہ مودی کے لئے کافی فکرمندی کی بات ہے۔ گجرات چناؤ میں آر ایس ایس کے کردار کو بھی کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ قابل ذکر ہے اس مرتبہ سنگھ بھی مودی کی مخالفت کررہی ہے اور کیشو بھائی کی خفیہ مدد کررہی ہے۔ سوراشٹر علاقے کی 17-18 سیٹیں او بی سی، ایس سی؍ایس ٹی بیش قیمت ہیں۔ پارٹی کے ذرائع کے مطابق اگر پارٹی کو سوراشٹر علاقے میں جھٹکا لگتا ہے تو یہ نہ صرف مودی بلکہ بھاجپا کے لئے بھی زبردست صدمہ ہوگا۔ نریندر مودی کے حمایتیوں کے ذریعے انہیں امکانی وزیر اعظم پروجیکٹ کرنے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے مودی کو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے میں مدد ملے گی۔ اب مقامی اشوز کو درکنار کر اپنے ووٹروں کو یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ ان کی جیت وزیر اعظم کی کرسی تک لے جائے گی جس سے ریاست کو کافی فائدہ ہوگا۔ نریندر مودی کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے سے ریاست میں کانگریس کو بھلے ہی کوئی فائدہ نہ ہو لیکن مرکزی سیاست میں فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ اقلیت ووٹروں کے موڑنے سے اس کے حق میں فائدہ ہونے والا ہے۔گجرات اسمبلی چناؤ میں بھاجپا اپنے بوتے پر 1995 میں برسر اقتدار آئے تھی تب سے وہ مسلسل ریاست میں چناؤ جیت رہی ہے۔ کانگریس گجرات میں اس بات سنبھل کر چل رہی ہے۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں سونیا گاندھی نے اپنی ریلیوں میں نریندر مودی کو موت کا سوداگر کہہ دیا تھا۔ جس پر سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور مودی کا پرچم پھر لہرایاگیا تھا۔ ویسے اس مرتبہ بھی کانگریس نے ویسی ہی چوک کردی ہے کہ معطل آئی پی ایسافسر سنجیو بھٹ کی بیوی شویتا بھٹ کو پارٹی نے گاندھی نگر میں وزیراعلی مودی کے مقابلے پر اتارا ہے۔ اس کاپوری ریاست میں رد عمل ہورہا ہے۔ شویتا اگر اپنی ضمانت بچا لیں تو بہت بڑی بات ہوگی لیکن انہیں مودی کے مقابلے پر اتارنے سے دوسرے علاقوں میں بھی نقصان کا خطرہ ہے۔ کانگریس کو لگ رہا تھا کہ بھاجپا کی اندرونی پھوٹ کے سبب چناؤمیں نریندر مودی اکیلے پڑ جائیں گے۔ کیشو بھائی پٹیل بھاجپا کے مینڈینٹ میں سیند لگائیں گے۔ اس ناطے بھی کانگریس کو کامیابی ملنے کی امید ہے لیکن گجرات میں اس نے وزیر اعلی کے عہدے پر اپنا کوئی امیدوار نہ اعلان کرکے ایک طرح سے اپنی ہار پہلے ہی مان لی ہے۔ مودی نے اس مسئلے پر کانگریس کی گھیرا بندی کے لئے کہا تھا کہ کانگریس پچھلے دروازے سے سونیا کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو صوبے کا وزیر اعلی بنانے کے چکر میں ہے۔ ایسا کر مودی نے پھر ہندو کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تھی۔ مودی اپنی چناوی ریلیوں میں سیدھے سونیا گاندھی اور مرکزی سرکار کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔مسٹر مودی اپنی سیاسی زندگی کا یہ سب سے اہم چناؤ لڑ رہے ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟