دھوکہ،غلط فہمی پھیلانے والے اشتہارات پر کارروائی ہو

آج کل ٹی وی اور اخبارات میں ایسے اشتہارات کی کمی نہیں جن میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے کم سے کم وقت میں موٹاپا،شگر کی بیماریاں یہاں تک کہ دل سے جڑی بیماریوں سے بھی نجات پائی جاسکتی ہے۔ بچوں سے متعلق اشتہارات کا تو سیلاب ہی آگیا ہے۔ مثال کے طور پر دودھ میں ملائے جانے والے پروڈکٹس بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات میں بچوں کی نشو ونما اور یادداشت میں دوگنا رفتار سے اضافہ، جسم کو فوراً تقویت دینے اور لمبائی دوانچ بڑھانے وغیرہ کا دعوی کیا جاتا ہے۔ یہ چیزیں بازار میں خاصی مقبولیت حاصل کرچکی ہوتی ہیں تبھی تو سامان بنانے والی کمپنیاں لاکھوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں۔ اسی طرح سے کہا جاتا ہے چاکلیٹ ملے مشروبات سے بچے لمبے، طاقتور اور تیز ہوجاتے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی بھی حقیقت یا سائنسی مطالعہ سامنے نہیں آیا جو ان دعوؤں کی تصدیق کرتا ہو۔ شاید یہ ہی وجہ ہے ہندوستانی غذائی سکیورٹی و اسٹنڈرڈ اتھارٹی یعنی ایف ایس ایس آئی نے کئی شکایتوں کے پیش نظر ایسے 35 معاملوں میں نوٹس جاری کیا ہے۔ اخبارات ٹی وی چینلوں اور دوسری پبلسٹی ذرائع پر دکھائے جانے والے اشتہارات سے متعلق چیزوں کی خوبیوں کے بارے میں دعوؤں کو جانچے اور پرکھنے کی ضرورت شاید ہی سمجھی جاتی ہے۔ دراصل ہمیں لگتا ہے کھانے پینے سے لیکر خوبصورتی نکھارنے جیسی چیزوں کے اشتہارات میں دعوی کیا جاتا ہے اس میں حقیقت کم ہوتی ہے اور غلط فہمی زیادہ۔ مشکل ایک یہ بھی ہے کہ ایسے دعوؤں کی اصلیت کی جانچ پرکھ کی نہ تو کوئی کسوٹی موجودہے اور نہ ہی ان پر کارگر طریقے سے روک لگانے کے لئے مشینری جبکہ ڈبہ بند فوڈ پروڈکٹس کو لیکر دواؤں یا دوسر ے تمام پروڈکٹس کے اشتہارات میں کئے گئے دعوے لوگوں کے ضمیر پر اثر ڈالتے ہیں اور وہ دوسرے متبادل پر غور کرنا چھوڑدیتے ہیں۔
جسم، صحت اور اس کے رنگ ڈھنگ کو لیکر کئی طرح کی مثبت اور غیر مثبت پہلے سے لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ان میں من چاہی تبدیلی اور اپنے اندر بھروسہ پیدا کرنے کے امکان کا لالچ پیدا ہوتا ہے اوریہ پیدا کرنا کمپنیوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔ گورے پن کی کریم یا موٹاپا گھٹانے کی دواؤں کے بارے میں جو دعوے کئے جاتے ہیں انہیں محض جھوٹ اور دھوکہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان کے مضر اثرات کی اکثر خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ صارفین کو راغب کرنے کے لئے جانے مانے فلمی ستاروں، کھلاڑیوں اور مایا ناز ہستیوں کا بھی اشتہارت میں سہارا لیا جاتا ہے۔ جہاں ہم فوڈ اتھارٹی کے ذریعے اٹھائے گئے قدموں کا خیر مقدم کرتے ہیں وہیں یہ سوال بھی واجب ہے کہ جب خود ایف ایس ایس آئی خود یہ کہتا ہے کہ ایسے اشتہارات محض لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو یہ سب اتنے برسوں سے کیوں چل رہا ہے؟ کیوں نہیں ان اشتہارات پر روک لگائی گئی اور متعلقہ کمپنیوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے گئے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟