رابرٹ واڈرا کو کلین چٹ دینے کا معاملہ

سرخیوں میں چھائے رابرٹ واڈرا زمین گھوٹالے معاملے پر وزیراعظم کے دفتر نے واڈرا کو کلین چٹ دے د ی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ میں چل رہے ایک مقدمے کے سلسلے میں سونیاگاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کے خلاف اروند کجریوال کے ذریعے عائد الزامات پر پی ایم او کی طرف سے جواب داخل کیا گیا ہے اس اعتراض نامے میں کہا گیا ہے کہ واڈرا پر لگے الزامات بے بنیاد ہی نہیں بلکہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ معاملہ رابرٹ واڈرا و ہریانہ کی ڈی ایل ایف کمپنی کے درمیان کا ہے ایسے میں وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جانچ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ نوتن ٹھاکر کی عرضی پر گذشتہ11 اکتوبر کو الہ آبادہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے مرکزی سرکار کو عرضی پر اعتراض پرجواب داخل کرنے کے لئے تین ہفتے کا وقت دیا تھا۔ یہ معاملہ سینئر وکیل جسٹس اوما ناتھ سنگھ اور جسٹس وریندر ناتھ دیکشت کی ڈویژن بنچ کے سامنے چل رہا ہے۔ بحث اس نکتہ پر ہورہی ہے کہ کیا عرضی سماعت کے لائق ہے یا نہیں مرکزی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل موہن پرکاش پراشن کی دلیل تھی کہ عرضی میڈیا رپورٹ پر مبنی ہے۔ ایسے میں اخباری خبروں سے متعلق حقائق والی یہ عرضی خارج کئے جانے کے لائق ہے کیونکہ یہ سنی سنائی باتوں پر قلمبند کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں ٹھوس ثبوت داخل کر نوتن ٹھاکر کے وکیل اشوک مارکنڈے کا کہناتھا کہ جب اس معاملے پر داخل اعتراض میں پی ایم او کی طرف سے اسے دو ذاتی لوگوں کے بیچ کا معاملہ کہا جارہا ہے، پھر اس میں تیزی سے پیروی کیوں نہیں کی جارہی ہے۔ نوتن ٹھاکر نے اپنی عرضی میں کہا کہ رابرٹ واڈرا کی کمپنی ڈی ایل ایف کی ملی بھگت سے کچھ ہی برسوں میں رابرٹ واڈرا کی املاک 50 لاکھ سے بڑھ کر500 کروڑ رکیسے ہوگئی۔ اسی طرح کے الزام عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے بھی واڈرا پر لگائے تھے۔ اس معاملے میں شائع خبروں کی بنیاد پر مفاد عامہ کی عرضی تیار کر مانگی گئی معاملے کی جانچ وزیر اعظم کے دفتر کی نگرانی میں کرائی جائے۔ عرضی میں یہ بھی دلیل دی گئی تھی کہ عرضی گذار نے اس معاملے میں9 اکتوبر کو پی ایم او کو ایک میمو دیا تھا جس میں واڈرا کے خلاف الزامات کی جانچ کرانے کی درخواست کی گئی تھی۔ ایسے میں عرضی گذار کو عرضی دائر کرنے کا پورا حق ملتا ہے۔عرضی گذار کے وزیر کا کہنا ہے کہ معاملے میں ’’سچائی ‘‘ کو سامنے لانے کے لئے الزامات کی جانچ کے بارے میں پی ایم او کو ہدایت دی جانی چاہئے۔ دونوں فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد جسٹس اوما نند سنگھ اور جسٹس وریندر کمار دیکشت کی ڈویژن بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس سے پہلے معاملے میں ایک اور بات ابھر کر سامنے آئی۔ وزیر اعظم کے دفتر اور مرکزی حکومت کی جانب سے متضاد دلیلیں پیش کی گئیں۔ ایک طرف عرضی گذار کو حقائق کی بنیاد پر غیر ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ساتھ ہی کہاگیا کہ معاملہ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے دائرے سے باہر کا ہے۔ پی ایم او نے کہا کیونکہ معاملہ پرائیویٹ پارٹیوں کا ہے اس لئے اسکی جانچ نہیں کرائی جاسکتی۔ دیکھیں بنچ اپنا کیا فیصلہ سناتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟