دہشت گردی معاملوں میں مسلم لڑکوں کو زبردستی اٹھانے و ستانے کا سوال

پیر کو کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کر ایک میمورنڈم دیا۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے برسوں تک جسمانی اور ذہنی اذیت جھیلنے کے بعد کچھ بے قصور متاثرین کو آزادی مل پائی ہے۔ ان بے گناہوں کے ساتھ ہی ان کے رشتے داروں کے ذریعے برسوں تک جھیلی گئی بدنامی کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ وزیر اعظم نے دہشت گردی کے الزام ثابت نہ ہونے کے بعد بھی جیل میں بند بے گناہ مسلم لڑکوں کا مسئلہ جلد سلجھانے کا بھروسہ دلایا ہے۔ حال ہی میں اترپردیش میں اکھلیش یادو کی سرکار نے دہشت گردی کے ملزمان کے خلاف مقدمے واپس لینے کی مہم چلائی لیکن ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد انہیں سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ نمائندہ وفد کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی دھماکہ ہوتا ہے تو پولیس بے قصور مسلمانوں کو مقدموں میں خانہ پوری کرنے کے لئے پھنسا دیتی ہے۔ اس میں سچائی بھی ہے۔ پولیس ٹھیک سے چھان بین تو نہیں کرتی بس خانہ پوری کرنے کے لئے گرفتاریاں دکھا دیتی ہے۔ لیکن عدالتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے عدالت با عزت بری کرتی ہے اور چھوڑ دیتی ہے۔ ہمارے سامنے دہلی ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ ایک مثال ہے۔ عدالت کے چیف جسٹس ایس روندر بھٹ اور جسٹس جی پی متل کی ڈویژن بنچ نے لاجپت نگر بم دھماکے میں دو ملزمان کو ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر بری کردیا۔جبکہ ایک کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ پولیس کے مستعد نہ ہونے سے ہائی کورٹ اس قدر ناراض تھی کہ اس نے جانچ کے دوران ہوئی خامیوں کو ایک طرفہ طور پر گنا دیا۔ ساتھ ہی اپنی ذمہ داری نہ نبھانے پر دہلی پولیس کو کھری کھوٹی سنائی۔ لاجپت نگر کے سینٹرل مارکیٹ میں 21 مئی 1996 ء کو ہوئے دھماکے میں13 لوگ مارے گئے تھے۔ نچلی عدالت میں اپریل2008ء میں اس دھماکے کے تین ملزمان مرزا نثار حسین، محمد علی بھٹ اور نشاد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی جبکہ جاوید کو عمر قید کی سزا۔ ہائی کورٹ میں ججوں نے جانچ میں خامیاں گناتے ہوئے کہاں کہ دہلی پولیس نے کم از کم پیمانہ اصول کی تعمیل نہیں کی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دھماکے جیسے معاملے کی جانچ کو بہت ہلکے سے لیا گیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر پولیس نے کیس میں کوتاہی برتی ہوتی تو نچلی عدالت نے کونسی چھان بین کر سزا سنائی ہے؟ اگر ہائی کورٹ کو جانچ میں خامیاں نظر آئیں تو نچلی عدالت کو کیوں نہیں نظر آئیں؟ ہم اس بات سے متفق ہیں کہ برسوں جیل میں رہنے کے بعد اگر کوئی ملزم بے قصور ثابت ہوتا ہے تو اس کا کھوئے وقت کا ہرجانہ کون بھرے گا۔ یا تو یہ ہو کہ ایسے معاملوں میں جتنے برس ملزم جیل میں زبردستی کاٹے اس کا اسے سالانہ ہرجانہ دیا جائے۔ سب سے بہتر ہل تو ہماری رائے میں یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی طرح آتنک واد سے متعلق معاملوں کا نپٹارا ایک سال میں کردیا جانا چاہئے۔ پاکستان جیسے دیش میں یہ ممکن ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ اگر ایک مقررہ مدت میں مقدمے کا نپٹارہ ہوجائے تو بہت سے جڑے مسائل ختم ہوجائیں گے اور ملزم قصوروار ہے یا نہیں یہ محض عدالت ہی طے کرسکتی ہے نہ تو پولیس اور نہ ہی کوئی سرکار۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟