بھارتیہ کھیلوں کا کالا دن 4 دسمبر

بھارتیہ کھیلوں کو جھٹکے تو اکثر لگتے ہی رہتے ہیں لیکن اتنا بڑا جھٹکا شاید پہلے کبھی نہیں لگا ہوگا جتنا 4 دسمبر کو لگا تھا۔ ہم اسے ہندوستانی کھیلوں کے لئے کالا دن کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔4 دسمبر کو انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی نے بھارتیہ اولمپک ایسوسی ایشن کے چناؤ میں سرکاری مداخلت کو اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی مانتے ہوئے آئی او اے کو اولمپک تحریک سے معطل کردیا ہے۔ آئی اوسی کے ایگزیکٹو بورڈ کی سوئٹزرلینڈ کے لوسانا میں ہوئی دو روزہ میٹنگ میں آئی او اے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی او سی نے آئی او اے کے چناؤ کو کھیل قانون کے تحت کرانے پر ہی ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے صاف کردیا تھا کہ وہ ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں بھارت کی معطلی کا ریزولیشن پیش کرے گا اور اسے آخر اب آئی او اے سے معطل کردیا گیا ہے۔ اس معطلی کے فیصلے کے دور رس اثر ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کی سپریم کھیل تنظیم کو آئی او سی سے کسی طرح کی مدد نہیں ملے گی اور اس کے حکام اولمپک میٹنگوں میں حصہ لینے اور کھلاڑی اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے سے محروم ہوجائیں گے۔ بھارتیہ ایتھلیٹ اپنے قومی پرچم کے نیچے اولمپک مقابلوں میں حصہ نہ لے سکیں گے۔ دراصل آئی او سی نے آئی او اے کو مطلع کیا تھا کہ اس کے چناؤ صرف اولمپک چارٹر کے مطابق ہی ہوسکتے ہیں اور چناؤ نے سرکاری کھیل ایکٹ کا استعمال کرنے پر اسے معطل کیا جاسکتا ہے۔ باوجود اس کے آئی او اے نے یہ کہتے ہوئے اپنا قدم آگے بڑھایا کے وہ دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے سے بندھے ہوئے ہیں۔ وزیر کھیل جتیندر سنگھ آئی او اے کے نگراں چیئرمین وجے کمار ملہوترہ اور آئی او اے چناؤ سے پہلے بلامقابلہ چنے گئے ابھے سنگھ چوٹالہ نے فیصلے کو افسوسناک بتایا۔ سارا جھگڑا5 دسمبر کو ہونے والے بھارتیہ اولمپک ایسوسی ایشن کے چناؤ کو لیکر کھڑا ہوا تھا۔ کھیل وزارت کے اسپورٹس کورٹ کے تحت ہورہے چناؤ کو لے کر آئی او سی نے کئی بار خبردار کیا اور معطلی کی دھمکی دی تھی لیکن آئی او اے نے ہائی کورٹ کے اس حکم کی مجبوری بتاتے ہوئے امید کی تھی کہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اب آگے تو یہ ہوسکتا ہے کہ بھارتیہ اولمپک ایسوسی ایشن آئی او سی کی اس معطلی کے فیصلے کے خلاف ذیلی عدالت میں چنوتی دے سکتا ہے۔ آئی او اے چناؤ میں جنرل سکریٹری کے عہدے پر بلامقابلہ منتخب للت بھنوٹ 2010 کے کامن ویلتھ گھوٹالے کے ملزم ہیں اور11 مہینے جیل میں رہ چکے ہیں۔ آئی او سی کو ایسے داغدار شخص کے تنظیم میں آنے پر اعتراض ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ اس ادارے سے کیسے نپٹا جائے؟ اگر آئی او اے کھیل ضابطے کی باتوں کو صحیح سمجھتی ہے تو اسے اپنے آئین میں شامل کرسکتی ہے۔ ایسا کرنے سے اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پچھلے لندن اولمپک میں پہلی بار بھارت نے 6 میڈل جیت کر اپنی دھاک جمائی تھی اور اب اس پر پابندی لگ گئی ہے۔ ویسے سب سے پہلے آئی او سی سے منظوری والے کھیلوں میں ایشیائی کھیلوں کا 2014ء میں انعقاد ہونا ہے اور اس وقت تک اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے بھارت کے پاس کافی وقت ہے۔ ویسے بھی آئی او سی کے ایگزیکٹو بورڈ کی ایک سال میں چار بار میٹنگیں ہوتی ہیں۔ اگلی میٹنگ اگلے سال فروری میں ہوگی اور اس وقت تک آئی او اے اپنا موقف رکھ کر اس فیصلے کو بدلوا سکتا ہے۔ اگر آئی او اے اولمپک چارٹر اور بھارتیہ کھیل قاعدے کو لیکر پیدا جھگڑے پر اپنا موقف رکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو بھی للت بھنوٹ کے چناؤ پر اٹھے سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔ اولمپک کھیل ایسوسی ایشن میں گروپ بندی اور بڑھتی جارہی ہے۔ سیاست کا یہ ہی مضر نتیجہ ہے۔ دراصل اولمپک ایسوسی ایشن کو سرکارکے ساتھ ساتھ سیاسی مداخلت سے بھی دور رکھنے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟