عدم استحکام اور کشیدہ حالات کی جانب گامزن مشرقی وسطیٰ

مشرقی وسطیٰ میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ مصر ،اسرائیل اور فلسطین ان تینوں ملکوں میں پھر سے ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ پہلے بات ہم مصر کی کرتے ہیں۔ مصر کی حکومت اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ بڑھ گیا ہے۔ دیش کی سپریم آئینی عدالت نے اسلامی شرعی آئین کے مسودے پر ریفرنڈم کرانے کے صدر محمد موروسی کے فیصلے پر احتجاج کیا ہے۔ اس نے 15 دسمبر کو مجوزہ ریفرنڈم کا معائنہ کرنے سے انکارکردیا ہے۔ مصر کے سینئر ججوں نے صدر محمد موروسی کے اسلام حمایتیوں کے ذہنی و جغرافیائی دباؤ کے خلاف بے مدت ہڑتال شروع کی جبکہ قریب ایک درجن اخبارات نے بھی اپوزیشن کی حمایت میں اپنے ایڈیشن نہ نکالے کا اعلان کیا ہے۔ موروسی نے پچھلے مہینے اپنے ہمنوا ملکوں کے ذریعے سے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد اپوزیشن سے سیدھے ان کا ٹکراؤ تیز ہوگیا۔ اسی درمیان بڑی آئینی عدالت نے کہا کہ اسلام پرستوں نے ججوں کو عدالت کمپلیکس میں داخل ہونے سے روکا جس کے خلاف وہ اپنا کام کاج عارضی طور پر ملتوی کررہے ہیں۔ کئی اخبارات میں نئے آئین کے خلاف احتجاج میں اپنے پہلے صفحے پر نعرہ لکھا ہے کہ ’’تانا شاہی نہیں چلے گی‘‘۔
ادھر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ فلسطین کی تاریخ میں اسے ایک شاندار کامیابی ملنے سے اسرائیل بوکھلا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں ہندوستان سمیت138 ملکوں نے فلسطین کی حمایت میں ووٹ کرکے اس عالمی عدالت نے اس کا قد بڑھادیا۔ عالمی ادارے میں فلسطین کی یہ تاریخی کامیابی ہے۔ اسرائیل کے لئے یہ ایک زبردست جھٹکا مانا جارہا ہے۔ جمعرات کی دیر رات جنرل اجلاس میں کل 193 ممبران میں سے امریکہ اور اسرائیل سمیت محض 9 ملکوں نے فلسطین کے پرستاؤ کے خلاف ووٹ ڈالا جبکہ 41 ملکوں نے پولنگ میں اپنی غیر موجودگی درج کرائی۔ اس بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی ادارے میں فلسطین کادرجہ ’’غیر ممبر مبصر‘‘ دیش کا ہوگا۔ جنرل اجلاس میں پولنگ سے پہلے اپنے خطاب میں فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ یہ ووٹنگ دراصل فلسطین ملک کے لئے ایک پیدائشی ثبوت کی طرح ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پہلے آج ہی کے دن جنرل اجلاس نے ریزولیوشن181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں بانٹا تھا اور اسرائیل کو پیدائشی ثبوت نامہ دے دیا تھا۔ ابھی تک اقوام متحدہ میں فلسطین کو اتھارٹی مبصر کا درجہ حاصل تھا۔ اقوام متحدہ میں ریزولیوشن پاس ہونے کے بعد غذا شہر اور مغربی ساحلی کنارے پر جشن کا ماحول دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی فلسطین نے بین الاقوامی سطح پر ملک کے طور پر منظوری حاصل کرنے کی سمت میں ایک اور مرحلہ طے کرلیا ہے۔ ریزولیوشن کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کے سفیر ران پروسول نے پولنگ سے پہلے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ریزولیوشن سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو جھٹکا ہی لگے گا۔ اسرائیلی لوگوں کا اسرائیل سے چار ہزار سال پرانہ رشتہ ہے۔ اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوسان رائس نے پولنگ کے بعد کہا کہ آج یہ ریزولیوشن امن کی راہ میں ایک اور روڑا اٹکانے والا ریزولیوشن ہے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس ریزولیوشن کے لئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا لیکن دونوں ملکوں میں اس ریزولیوشن کو لائے جانے سے خوشی نہیں ہے۔ پچھلے سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں عرضی دی تھی لیکن سکیورٹی کونسل میں امریکہ نے اس ریزولیوشن کو ویٹو کردیا تھا اور فلسطین کی کوششوں پر پانی پھیردیا تھا۔ عرب دنیا میں اس فیصلے پر خوشی کا ماحول ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ کل ملاکر مشرقی وسطیٰ میں عدم استحکام اور کشیدگی کا ماحول پیدا ہوتا جارہا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ حالات قابو میں ہی رہیں کیونکہ اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا مضر اثر مشرقی وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!