سری پرکاش جیسوال کی پھر پھسلی زبان اس بار برے پھنسے


مرکزی حکومت میں وزیر کوئلہ سری جے پرکاش جیسوال اپنے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور ہوچکے ہیں۔ کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے میں حریفوں کی چوطرفہ مخالفت جھیل رہے جیسوال کی زبان پھر پھسل گئی اور ایک نئے بونڈر میں پھنس گئے۔ اپنی سالگرہ پر سنیچر کو کانپور کے ایک کوی سمیلن میں جیسوال کہہ گئے کہ جیسے جیسے وقت گذرتا ہے بیوی پرانی ہوجاتی ہے،پھر وہ مزہ نہیں رہتا۔ منتری جی کا تبصرہ عورتوں کوبہت ناگوار گزرا۔مایوس عورتوں نے منگلوار کو سڑکوں پر اتر کر جیسوال کے پوسٹر پر سیاہی پوت دی اور’ مردہ باد ‘کے نعرے لگائے۔ سری پرکاش کا پتلا جلانے کے بعد اعلان کیا گیا انہیں کیبنٹ سے باہر نہ نکالا گیا تو ملک گیر تحریک چھیڑی جائے گی۔ ان کا یہ بیان عورت سماج پر حملہ ہے۔ خواتین تنظیموں نے اس پر سخت ناراضؑ ی ظاہر کرتے ہوئے کہا اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے جیسوال کے منہ سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یہ شادی جیسے مقدس رشتے اور شادی شدہ عورتوں پر ایک طریقے سے چٹکی ہے۔ آکانکشا ناری سیوا سمیتی نے کہا منتری جی بتائیں کہ مزے سے ان کا کیا مقصد ہے؟غور طلب ہے کہ قدوائی نگر میں واقع گرلز کالج میں کوی سمیلن میں سری پرکاش جیسوال بولے ’چاہتے تھا ایک دو گھنٹے کا وقت پاس ہوجائے اور پاس ہوگیا اور اس کا نتیجہ بھی اچھا رہا کے بھارت جیت گیا (ٹی20-) اور لوگ خوش ہیں۔ نئی نئی جیت اور نئی نئی شادی دونوں کی الگ الگ اہمیت ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا ہے جیت پرانی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے وقت گذرتا ہے تو بیوی پرانی ہوتی جاتی ہے کیونکہ جیت کا وہ مزہ نہیں رہتا۔ یہ سن کر وہاں بیٹھے سامی اور شاعر بھی سناٹے میں آگئے۔ کانا پھونسی تو اسی وقت سے شروع ہوگئی کہ منتری یہ کیا کہہ گئے؟ ایک عورت کا تبصرہ تھامزہ اس کا مطلب تو منتری جی ہی سمجھا دیں، ایسی اوچھی، خراب باتیں کرنا کسی نیتا کو زیب نہیں دیتا۔ ایسے الفاظ بول کر انہوں نے اپنی عزت کم کردی ہے۔ جب نیتاؤں کی یہ سوچ ہوگی تو سماج کو وہ کیسے بدلیں گے اس کا تو ایشور ہی مالک ہے۔۔۔اپنے اس خیر مقدمی پروگرام میں سبھی بڑے لوگ موجود تھے کسی نے ان کی مخالفت تک نہیں کی۔ کیا سبھی کا دماغ ایک جیسا چلتا ہے۔ سابق ایم پی سبھاشنی علی نے کہا کہ ایسا غیر ذمہ دار آدمی مرکزی کیبنٹ میں نہیں ہوناچاہئے۔ زندگی میں بیوی کا کیا کردار ہوتا ہے بیان دینے سے پہلے اس پر غور ہی نہیں کیا تو میں کہتی ہوں کہ مسز جیسوال سے بھی پوچھنا چاہئے کہ وہ کیسا محسوس کررہی ہیں جیسے سیاستدانوں کی عادت ہوتی ہے اسی طرح سری پرکاش جیسوال سارا الزام میڈیا پر مڑھ گئے اور کہا ان کی باتیں توڑ مروڑ کر اور مواد سے ہٹ کر رکھی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ان کی بات بھارت۔ پاک کی جیت کے سلسلے میں کہی گئی تھی جبکہ اسے اس سلسلے سے ہٹا کر دیکھا گیا۔ انہوں نے کہا وہ عورتوں کی بے عزتی کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کی بات کو کاٹ چھاٹ کر دکھایا گیا ہے اگر پھر بھی کسی کو ٹھیس پہنچی ہے تووہ معافی مانگتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!