جنتر منتر پرممتا کے ایک تیر سے کئی نشانے

ملٹی برانڈ خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کی لڑائی بڑھتی جارہی ہے اور ممتا اب تو سڑکوں پر آگئی۔ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی نے اس اشو اور مہنگائی کو لیکر دہلی میں اپنا پہلا دھرنہ دیا۔ جنترمنتر پر منعقدہ ریلی میں انہوں نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ممتا کے نئے داؤ سے نہ صرف کانگریس کے لئے بلکہ بھاجپا کے لئے بھی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ چار گھنٹے تک جاری اس دھرنے میں بنگلہ سے آئے نیتا پس منظر میں پیچھے ہی رہے۔ فوکس پر دوسرے نیتا رہے۔ اترپردیش سے چنے گئے واحد ٹی ایم سی کے ممبر اسمبلی شیام سندر شرما، منی پور سے آئی ٹی ایم سی کی لیڈر کم اور ہریانہ سے آئے لیڈروں پر زیادہ توجہ رہی۔ خود ممتا نے کہا کہ وہ دہلی کی لڑائی دہلی کے لوگوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ وہ اپنی پارٹی کو قومی شکل دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ ممتا کی یہ بات کافی اہم ہے۔ماں ماٹی اور مانش کی لڑائی بنگال تک محدود نہیں رہی۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو بطور ایک قومی لیڈر کی شکل میں پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص بات تو یہ تھی کہ سبھی نیتاؤں نے ہندی میں بات کی کیونکہ ہندی لوگوں کو جوڑنا ہے۔ ریلی میں ممتا نے ایک اور داؤ بھی چلا۔ تیسرے مورچے کی حسرت کو نئے پنکھ لگانے کے اشارے دئے۔ یوپی اے سے الگ ہونے کے بعد وہ ملائم سنگھ یادو، نوین پٹنائک، جے للتا و نتیش کمار کو ایک اسٹیج پر لانے میں لگی ہیں۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے نومبر میں لکھنؤ میں ہونے والی بڑی تحریک کے دوران ملائم سنگھ موجود رہیں گے۔ انہوں نے پٹنہ میں بھی پروگرام منعقد کرنے کی بات کہی ہے۔ حالانکہ دھرنے میں شرد یادو بھی موجود تھے لیکن انہوں نے ممتا سے جڑنے کے بارے میں فی الحال کوئی اشارہ نہیں دیا۔ ممتا کی نیت صاف ہے وہ غیر کانگریس، غیر بھاجپا مورچہ بنانا چاہتی ہیں اور اس کوشش سے دونوں کانگریس ۔ بھاجپا کے لئے اچھے اشارہ نہیں مانے جاسکتے۔ ممتا بنرجی نے ہوشیاری سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ بھاجپا کے ساتھ جڑی مسلم مخالفت کا داغ ان پر نہ لگے۔ ممتا بنرجی کی کوشش یہ بھی لگتی ہے کہ اگر اگلے چناؤ میں غیر کانگریس غیر بھاجپا پارٹیوں کو اکثریت ملتی ہے اور کسی قسم کا اتحاد بنتا ہے تو اس کی قیادت ان کے پاس ہی رہے۔ بدقسمتی یہ ہے ملائم سنگھ یادو بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ملائم لیفٹ پارٹیوں کی حمایت لے رہے ہیں اور لیفٹ اور ممتا ایک ساتھ کبھی نہیں آسکتے۔ یوپی اے کے پچھلے عہد میں لیفٹ پارٹیوں نے امریکہ کے ساتھ نیوکلیائی معاہدے کے خلاف احتجاج میں سرکار سے حمایت واپس لے لی تھی اور اس بار اتفاق سے مغربی بنگال کی پارٹی ترنمول کانگریس نے ایف ڈی آئی پر حمایت واپس لی ہے۔ دونوں وقت یہ ہی امید تھی کہ مغربی بنگال میں حکمراں لیڈر مرکز میں کانگریس کو اپنا کام کرنے دیں گے بدلے میں مغربی بنگال کے لئے زیادہ سے زیادہ رعایتیں پانے کی کوشش کریں گے۔ کسی وقت دیش کا خوشحال راجیہ مغربی بنگال اس وقت پسماندہ ریاستوں کی قطار میں شامل ہوچکا ہے اور اسے ترقی کے راستے پر لانے کیلئے مرکزی سرکار کے فراخ دلانہ تعاون کی ضرورت ہے اور ممتا کے تازے موقف سے یہ مقصد کتنا پورا ہوگا اس میں شبہ ہے۔ دھرنے میں ممتا نے وزیر اعظم پر سیدھا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ منموہن سنگھ عام آدمی کو بھول چکے ہیں۔ اصلاحات کے نام پر ایف ڈی آئی اور ڈیزل کے قیمتوں میں اضافے کے فیصلوں پر جنتا کو لوٹا جارہا ہے۔ اگر سرکار کو پیسہ چاہئے تو بیرونی ممالک میں جمع کئی لاکھ کروڑ کالا دھن واپس لائیں۔ دلچسپ یہ بھی ہے ادھر ممتا دہلی میں اپنی طاقت دکھا رہی تھیں ٹھیک اسی وقت کولکتہ میں مارکس وادی پارٹی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں لگی تھی۔ مغربی بنگال میں قانون و انتظام اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف نارتھ 24 پرگنہ ضلع کے دھرم تلئی گاؤں میں مارکسوادی پارٹی نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ جمع کرکے اپنی طاقت دکھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!