سپریم کورٹ کے فیصلے سے سرکار کو راحت پر ذمہ داری سے نجات نہیں

سپریم کورٹ نے سرکار کو بڑی راحت دی ہے۔ یقینی طور سے صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سے حکومت نے راحت کی سانس لی ہوگی۔ عدالت کا کہنا ہے سبھی قدرتی وسائل کی تقسیم کے لئے نیلامی ضروری نہیں ہے۔ عدالت کا حکم صرف ٹو جی اسپیکٹرم تک محدود رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مانا کے قدرتی وسائل کا بٹوارہ پالیسی ساز معاملہ ہے اور عدالت کو اس میں دخل سے تب تک بچنا چاہئے جب تک اس میں لوٹ یا گھپلے کا اندیشہ نہ ہو۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ٹو جی اسپیکٹرم کے 122 لائسنس منسوخ کرنے کے معاملے میں صدارتی ریفرنس داخل کیا تھا۔ عدالت کے فیصلے سے ایک مشکل تو ضرور ہوگی کہ قدرتی وسائل کو ذاتی مفادات کے حوالے کرنے کی شکل کیا ہو، مفاد عامہ میں اسے طے کرنے کا اختیار صرف انتظامیہ کو ہے۔ اقتصادی اصلاحات کو رفتار دینے والے مجوزہ فیصلوں کے ریفرنس میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ حالانکہ صدارتی ریفرنس پر آئینی بنچ کے ظاہر خیالات عدالتی فیصلوں میں رکاوٹ نہیں ہیں لیکن کسے معاملے پر غور کرتے وقت وہ اس سے رائے لے سکتی ہے۔ دراصل سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کے سبب پچھلے کچھ مہینوں سے ایسا مانا جانے لگا تھا کہ عدالت یا سی اے جی یا کوئی بھی بڑا آئینی ادارہ سرکار کے کام کاج کو ہی نہیں اس کی پالیسیوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے۔ گذشتہ فروری میں ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں سنائے گئے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کی ایک دو نفری بنچ نے ’پہلے آؤ پہلے پاؤ‘ کی بنیاد پر جاری کردہ 122 ٹیلی کوم لائسنس منسوخ کردئے تھے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سرکار کے ذریعے کسی بھی قدرتی وسائل کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچنے کا ایک واحد قانونی اور آئینی طریقہ شفافی طریقے سے اس کی نیلامی ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے کچھ دن بعد سی اے جی نے کوئلہ بلاکوں کے الاٹمنٹ کو لیکر جاری اپنی رپورٹ میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ ان کی نیلامی نہ کئے جانے سے سرکاری خزانے کو 1 لاکھ 84 ہزارکروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اب مرکز کے کئی وزیر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کا حوالہ دیکر سی اے جی کو نصیحت کرنے میں لگ گئے ہیں۔ مانو نیلامی کا طریقہ ہی نہیں اپنایا گیا تو باقی جو کچھ ہوا وہ سب ٹھیک تھا اور اس پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی جبکہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی تقاضے کی تشریح کی ہے۔ عدالت نے صاف کہا ہے کہ الاٹمنٹ ہر حال میں صاف ستھری ہونی چاہئے۔ اگر الاٹمنٹ کا طریقہ منمانا اور مرضی اور غلط ہے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے اس لئے سرکار کو جوابدہی سے کلی طور پر نجات نہیں ملی ہے اسے اپنے فیصلوں کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔ کبھی انہیں چنوتی دی جاسکتی ہے۔ عدلیہ کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ ضرور ہے کہ شفافیت برتتے ہوئے ہر شکایت کا عدالت میں جائزہ لیا جاسکے یہ ضروری نہیں لگتا۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے نے منمانی کیلئے ایک گلی چھوڑدی ہے۔ بہتر ہوتا سپریم کورٹ ایسے الاٹمنٹ کے لئے ایک وسیع پالیسی بنانے اور آئین سازیہ سے اس کی منظوری لینے کی ہدایت دیتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟