کشمیر میں امن و سکون دہشت گرد و ان کے آقاؤں کو برداشت نہیں


جموں و کشمیر میں ایک بار پھر دہشت گردوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور چنے ہوئے عوامی نمائندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔پچھلے دو ہفتے میں دہشت گردوں نے دو سرپنچوں کو گولی سے اڑاکر ایک بار پھر وادی میں امن و سکون کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سال کے دوران مجموعی طور پر آدھا درجن پنچایت کے سرپنچ آتنک وادیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے پچھلے کئی دنوں سے مختلف علاقوں میں پوسٹر و پرچوں کے ذریعے پنچ و سرپنچوں کو استعفیٰ دینے یا پھر انجام بھگتنے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے پچھلے سال بے خوف ہوکر پنچایت چناؤ لڑا تھا اب وہ ڈر کے مارے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں میں 150 سے زیادہ پنچوں اور سرپنچوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔300 سے زیادہ نے اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دو دہائی سے زیادہ عرصے تک آتنک واد کا شکار رہے دیش کے اس سرحدی صوبے میں پچھلے سال ہوئے پنچایب چناؤ میں جب آتنک وادیوں کی دھمکیوں کونظرانداز کرتے ہوئے قریب80 فیصدی ووٹروں نے ووٹ کیا تو اس ریاست کا ایک بڑا کارنامہ جمہوری جیت مانا گیا تھا۔ کوئی تین دہائی بعد ہوئے ان انتخابات میں پنچایتوں کے تقریباً2000 عوامی نمائندے چنے گئے تھے اور یہ آتنک وادیوں کو برداشت نہیں تھا کیونکہ نہ صرف دیش میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کہا جانے لگا تھا کہ آتنک وادی طاقتیں صوبے میں الگ تھلگ پڑتی جا رہی ہیں اور خون خرابے کے واقعات میں بھی کمی آئی تھی۔ بہتر ہوتے ماحول کے سبب پچھلے دنوں شاہ رخ خان نے وادی میں فلم کی شوٹنگ کی تھی لیکن سرحد پار ان آتنک وادی تنظیموں کے مائی باپوں کو یہ حالت قبول نہیں تھی اور انہوں نے وادی میں اپنے پیادوں کو پھر سے سرگرم کردیا ہے۔ ایک بڑی تشویش جو پچھلے دنوں سامنے آئی ہے وہ ہے کشمیر میں آتنکی پولیس کا گٹھ جوڑ۔ آتنکی پولیس کی قلعی کھل جانے سے آج ریاست میں عدم سلامتی کا جو ماحول بنا ہوا ہے وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ وزیراعلی عمر عبداللہ نے تو آتنک وادیوں کو چنوتی تک دے ڈالی ہے۔ سینئر پولیس افسر بھی وزیر اعلی کی سلامتی کو لے کر فکر مند ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ریاستی پولیس نے یہ پردہ فاش کیا تھا کہ ریاست میں آتنکی پولیس گٹھ جوڑ خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے میں ملنے والے اشاروں پربھروسہ کریں تو ایسے گٹھ جوڑ سے پردہ اٹھانے کی اجازت پولیس کو دے دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں ایسے پولیس ملازمین کی بھی گرفتاری ہوسکتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ کچھ ایک نوجوان بھارت۔ تبت پولیس کے بھی گٹھ بندھن میں شامل ہیں حالانکہ ان کی گنتی برائے نام ہے۔ سرکاری طور پر مہیا کرانے والے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً ساڑھے چھ ہزار پولیس ملازمین کو آج سیاستدانوں اورسینئر پولیس افسران کی سلامتی کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔ ان میں آتنک وادیوں کے کتنے روابط ہیں پتہ لگانا سب سے ٹیڑھی کھیر بتایا گیا ہے۔ آپ کسی پر براہ راست انگلی نہیں اٹھا سکتے کیونکہ جب تک کوئی پختہ ثبوت نہ ہو تو انگلی اٹھانا بھاری پڑ سکتا ہے۔ جموں و کشمیر میں سرپنچوں کی سلامتی کو لیکر پنچایتوں کی طاقت کولیکر حکمراں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد میں تلخی پیدا ہوگئی ہے۔ جمعہ کو سرینگر میں یوتھ کانگریس نے جم کر نعرے بازی کی تھی اور عمر عبدالہ، فاروق عبداللہ کو نشانے پرلیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!