ریٹیل سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہمارا چھوٹا کسان تباہ ہوگا


منموہن سنگھ سرکار خوردہ بازار میں 51 فیصد براہ راست غیر ملکی تجارت کے فائدے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بتا رہی ہے کہ اس سے ہمارے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ میں نے شری انڈیا ایف ڈی آئی واچ کے ڈائریکٹرمسٹر دھرمیندر کمار کا اس موضوع پر ایک آرٹیکل پڑھا جس میں بتایا گیا کہ دنیا کے کچھ ملکوں میں جہاں ایف ڈی آئی لاگو کی جاچکی ہے وہاں کے کسانوں کا کیا تجربہ رہا ہے۔ دعوی کیا جارہا ہے کہ اس سے گھریلو صارفین کو ہی نہیں بلکہ کسانوں کو بھی فائدہ ہونے والا ہے۔ جبکہ ایسے کئی جائزے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کھیتی میں سرمایہ کاری سے کسانوں کو نقصان ہی ہوا ہے جس سے ان کے سامان کی سپلائی کی سیریز کا حصہ بن کر مناسب دام حاصل کرنے کے لئے کسانوں کو مشقت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں زندگی گزر بسر کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میکسیکو کے ایک مطالع میں وائلس بریہم ایگریکو ، کینڈل جیسی مطالجاتی تنظیموں نے پایا کے خوراک کی سپلائی کے سلسلے میں تبدیلی سے چھوٹے کسانوں کو عام طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اپنے دیش میں بھی خوردہ سیکٹر میں پہلے سے موجودہ صنعتی گھرانے صرف بڑے کسانوں سے ہی مال خریدتے ہیں چھوٹے کسانوں و ان کے تھوک خرید سسٹم سے باہر ہیں۔ ہمارے دیش میں78 فیصد کسان چھوٹے درجے کے ہیں ان کے پاس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور دیش کی کل کھیتی کی زمین کا 33 فیصد حصہ ہی چھوٹے کسانوں کے پاس ہے جبکہ دیش کی 90 فیصد سے زیادہ غذائی پیداوار یہ ہی لوگ کرتے ہیں۔ ذراعت کا تجارتی کرن چھوٹے کسانوں کے لئے نقصاندہ ہوسکتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی میں ذراعت اور اس سے وابستہ سیکٹروں کی حصہ داری میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں یہ اعدادو شمار گھٹ کر14 فیصدی رہ گئی ہے۔ بھارت کو کون کھلاتا ہے؟ اس کا جواب بھارت کے چھوٹے کسانوں کے پاس ہی ہوسکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ ان کسانوں کی قسمت کا فیصلہ سرکار نے والمارٹ جیسی کمپنیوں کے سپرد کردیا ہے۔ ریٹیل میں ایف ڈی آئی سے کھیتی مزدوروں کی حالت میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک مطالع کے مطابق والمارٹ کی وجہ سے میکسیکو کے کھیتی مزدوروں کی حالت بدتر ہوئی ہے۔ جن علاقوں میں کارپوریٹ ریٹیل چلائے جاتے ہیں وہاں روزگار اور مزدوری پر مضر اثرات سے غریبی بڑھی ہے۔ امریکہ میں جہاں جہاں والمارٹ ہے وہاں غریبی بڑھی ہے۔ ایک سچائی یہ بھی ہے سپر مارکیٹ آپسی مقابلے سے بچتی ہیں اس کا خمیازہ کسانوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ سپر مارکیٹ سے انہیں کم قیمت پر مال بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔چھوٹے کسانوں کو خوردہ قیمت پر 4 فیصدی سے بھی کم قیمت ملتی ہے۔ وہیں ریٹیل مارجن 34فیصدی سے اوپر ہے۔ بیشک ہمارے دیش میں کسانوں کو ملنے والی قیمت اور خوردہ قیمت کے فرق کو کم کیا جانا چاہئے لیکن اس کا قدم خوردہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ دودھ میں امول جیسی چیزوں میں کوآپریٹو کا استعمال کیا جاسکتا ہے تو غذائی پیداوار میں کیوں نہیں؟ کارپوریٹ ریٹیل کے بجائے مارکٹنگ کوآپریٹو کو بھی درست کیا جاسکتا ہے۔ سرکار کی دلیل یہ ہے کہ براہ راست غذائی سپلائی سے بچولیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے جبکہ سچائی یہ ہے لاکھوں چھوٹے بچولیوں کی جگہ بڑے بچولئے لے لیں گے۔ غذائی پروسیسنگ فوڈ سکیورٹی فوڈ پیمانہ، پیکنگ، لیبلنگ و تقسیم کرنے والی بڑی کمپنیاں بطور ایڈوائزر نئے بچولئے بن کر اتریں گی۔اس کے پاس مول بھاؤ کی زبردست طاقت ہوگی۔ بھارت تمام طرح کے کاروبار ی سمجھوتے کررہا ہے جس سے فوڈ پروسیسنگ اور غیر فوڈ پروسیسنگ غذائی سامان کی درآمد پر لگنے والے ٹیکس ختم ہوجائیں گے۔ امریکہ اور یوروپ کا غذائی سامان بازاروں میں آجائے گا۔ اس سے کسانوں سے ان کا بازار چھن جائے گا۔ ظاہر ہے کھدرا سیکٹر میں ایف ڈی آئی جیسے فیصلے کو چھوٹے کسانوں کے حق میں موڑنے کے لئے تمام طرح کے قائدے قواعد کی ضرورت ہوگی کیونکہ بے لگام کمپنیاں کھیتی اور خوردہ بازار میں تباہی مچا سکتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!