’کاکا‘ کا آخری ڈائیلاگ:ٹائم ہوگیا پیک اپ

بالی ووڈ کے پہلے رومانی سپر ہیرو راجیش کھنہ عرف کاکا ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کا بچپن کا نام جتن کھنہ تھا کا انتم سنسکار جمعرات کو کردیا گیا۔69 سالہ سپر اسٹار کا دیہانت طویل علالت کے بعد ہوا۔ انہیں بالی ووڈ کا پہلا سپر اسٹار مانا گیا تھا۔1965 ء سے راجیش کھنہ نے فلمی سفر شروع کیا تھا۔ محض 7 برسوں میں ہی وہ کسی معجزاتی معاجزے کی طرح سپر اسٹار کا درجہ پا گئے تھے۔ انہوں نے169 فلموں میں اداکاری کی ، ان میں سے128 فلموں میں ان کا کردار ہیرو کا رہا۔ ان کی15 سے زیادہ فلمیں سپر ہٹ رہیں۔ اس طرح راجیش کھنہ نے کئی نئے ریکارڈ بنائے۔ بالی ووڈ میں ان کا ’کاکا‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ راجیش کھنہ کے ڈائیلاگ اور ان پر فلمائے گئے گیت ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کچھ ڈائیلاگ تو اتنے ہٹ تھے اور ہیں وہ بھلائے نہیں جاسکتے۔ فلم ’آنند‘ میں نہ تو ان کا کردار بھلایا جاسکتا ہے نہ اس ڈائیلاگ کو ’’زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے جہاں پنا جسے نہ آپ بدل سکتے ہیں نہ میں، ہم سب تو رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کون کب ، کیسے اٹھے گا یہ کوئی نہیں جانتا‘ اسی فلم میں ایک اور ڈائیلاگ تھا ’کیا فرق ہے 70 سال اور 6 منٹ میں۔ موت تو ایک پل ہے آنے والے چھ مہینوں میں جو لاکھوں پل میں جینے والا ہوں اس کا کیا ہوگا بابو مشائے زندگی بڑی ہونی چاہئے لمبی نہیں‘‘۔ کاکا کی زندگی بھی بڑی تھی لمبی نہیں۔ کاکا ہمیشہ اپنے اسٹائل سے ایک کے بعد ایک لگاتار سپر ہٹ فلمیں دینے والے کاکا کا ایک الگ ہی اسٹائل تھا۔ یہ انداز انہیں اپنے سے پہلے کے تمام رومانی اداکاروں سے الگ کرتا تھا۔ آنکھ بند کرکے ایک طرف سر گھما کر ان کے ڈائیلاگ بولنے کی ادا فلم شائقین کو کچھ الگ ہی بھا جاتی تھی۔ ان کی شرارتی مسکان اور زیب چہرہ بھی پہلے سے قائم ہیرو کی ساکھ سے الگ تھا۔ اس نئے چہرے اور اسٹائل کی وجہ سے لوگ ان کے ڈائیلاگ اور ان کے اسٹائل کی نقل کرنے لگے تھے ایک طرح سے وہ اس زمانے کے فیشن کی علامت بن چکا تھا۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد جتنی شہروں میں تھی اتنی ہی دیہات میں تھی۔ بات اگر سنیما کے ذریعے سے سماج کی آنکھوں میں اترنے والے سپنوں کی کریں تو راجیش کھنہ ان سپنوں کے چکرورتی راجہ تھے۔ بزرگوں نے فلم ’آنند ‘ میں ان کے کینسر سے مرنے کے دردناک سین میں زندگی کی پہیلی کو سمجھا تو لڑکوں نے ’کٹی پتنگ اور ارادھنا، امر پریم‘ جیسی فلموں میں۔ راجے رجواڑوں کے زمانے کے پریمی اداکاروں کو بنیادسے نئے دور کے سماج کو فیشن ایبل رومانی آئی کون دیکھا۔ماؤں نے اپنے بچوں کا نام راجیش کھنہ رکھنا شروع کردیا۔ مقبولیت کی حد یہاں تک پہنچ گئی اس دور میں محاورہ ہی چل پڑا’اوپر آقا اور نیچے کاکا‘۔ راجیش کھنہ ایک بہت الگ ہی انسان تھے۔ وہ زیادہ ملنا جھلنا پسند نہیں کرتے تھے رشتے داروں اور دوستوں سے زیادہ انہوں نے شراب کی بوتل کا سہارا لیا۔ وہ اتنے خوددار انسان تھے کہ ان کی موت کا سبب ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔فلمی پردے پر سب سے ہٹ جوڑی کے طور پر راجیش نے اداکارہ ممتاز کے ساتھ کئی ہٹ فلمیں دیں۔ دونوں کی فلم ’آپ کی قسم، روٹی، اپنا دیش، سچا جھوٹا‘ سمیت10 فلمیں سپر ہٹ رہیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ لندن میں رہ رہی ممتاز نے بتایا کہ انہیں اس بات کی تسلی ہے کہ پچھلے مہینے وہ کاکا سے ملی تھیں۔ اس دوران دونوں نے کینسر سے اپنی اپنی لڑائی کی بات شیئر کی تھی۔ حالانکہ کاکا کے خاندان نے کبھی ان کی بیماری کے بارے میں نہیں بتایا۔ چھاتی کے کینسر سے لڑائی جیتنے والی ممتاز کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں بہت مضبوط ہوں اور وہ جانتے تھے کہ کیموتھیریپی کے دوران میں کس درد سے گذری تھی۔ ان کے لئے آرڈر کئے گئے بہت سارے کھانوں کے بارے میں مذاق کرنے پر انہوں نے کہا تھا کہ انہیں بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ اس دن بھی کاکا نے کچھ نہیں کھایا تھا لیکن بیماری کی اس حالت میں بھی وہ زندہ دل انسان تھے۔ مذاق کرنا، مسکرانا، قہقہے لگانا ان کی عادت تھی جو آخری وقت تک قائم رہی۔ بہرحال کاکا اپنے پیچھے صرف چمک اور مقبولیت کی دھوم نہیں چھوڑ گئے بلکہ ان کا سفر اپنے آخری مقام تک پہنچتے پہنچتے آخر میں تکلیف دہ حالت میں بدل گیا۔ راجیش کھنہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک اشتہار ’اوتار‘ میں لوگ جب ڈھلتے جسم اور کانپتی آواز میں یہ کہتے سنتے ہیں ’میرے فینز مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا‘ تو صاف لگتا ہے کہ وہ اپنے اداسی کے دن گذارنے کے بعد بھی راجیش کھنہ کی تلاش اسی چکاچوند میں تھی جو کبھی ان کے نام کے ذکر کے ساتھ پیدا ہوجایا کرتی تھی۔ آج جب کاکا نہیں ہیں تو ان پر فلمائے گئے یادگار گانے اور ڈائیلاگ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ آنند کبھی مرتا نہیں تو ان پر ہے،بدھوار کی دوپہر قریب ڈیڑھ بجے جب انہوں نے آخری سانس لی تو ان کے آخری الفاظ تھے ’ٹائم ہوگیا پیک اپ‘ اپنے آنند کی یاد میں بیحد جذباتی بابومشائے یعنی امیتابھ بچن نے دیر رات ٹوئٹر پر یہ بات شیئر کی تھی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟