پاک سپریم کورٹ اور زرداری میں آر پار کی لڑائی

پاکستان میں سپریم کورٹ اور صدر آصف علی زرداری کے درمیان شے مات کا کھیل آہستہ آہستہ کلائمکس پر پہنچ رہا ہے۔سپریم کورٹ نے حال ہی میں صدر زرداری کو لٹکانے ٹھان لی ہے جبکہ زرداری تمام مشکلات اور دباﺅ کے باوجود بھی اپنے عہدے پر جمے ہوئے ہیں۔ تازہ حالت یہ ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ نے موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو صدر زرداری کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں کرپشن کے معاملے کھولنے کے لئے خط لکھنے کے لئے 25 جولائی تک مہلت دی ہے۔ اس سے معاملے میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کی کرسی گنوا چکے ہیں۔ اس کے بعد ہی اشرف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسا کی سربراہی والی پانچ نکاتی بنچ نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیر اعظم سوئس حکومت کو خط لکھ کر25 جولائی کو ہونے والی سماعت کے دوران اس معاملے پر اپنی رپورٹ دیںگے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بنچ نے آئین کے تحت وزیر اعظم کے خلاف مناسب کارروائی کی بات بھی کہی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فرمان زرداری سرکارکے تازہ بل کے بعد آیا ہے۔ صدر زرداری نے فرمان آنے سے پہلے ایک توہین عدالت بل پر دستخط کئے ہیں۔ جس میں سینئر لیڈروں کو عدالتی توہین سے مستثنیٰ رکھنے کی سہولت رکھی گئی ہے۔ عدالتی توہین بل 2012 اب قانونی شکل لے چکا ہے یہ قانون موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ کی ممکنہ توہین سے بچانے کے لئے لایا گیا ہے اور صدر زرداری کی حفاظت کے لئے یہ کام آئے گا۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور سینیٹ اور نیشنل اسمبلی میں توہین عدالت کا بل2012 پاس ہونے کے بعد صدر نے بھی اسے اپنی منظوری دے دی ہے۔ کوئی بھی عدالت اس بل کے مطابق اب صدر ، وزیر اعظم اور فیڈرل وزیر اور گورنر کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ نہیں چلا سکے گی۔ زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ میںکرپشن کے معاملے کھولنے سے متعلق مقدمے سپریم کورٹ میں شروع ہونے کے کچھ گھنٹے پہلے ہی صدر زرداری نے اس بل پر دستخط کئے تھے۔ یہ قانون سال 2003 اور 2004 میں اس وقت کے فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے ذریعے عدالت کی توہین سے متعلق جاری آرڈیننس کی جگہ لے گا۔ یہ بل نچلے ایوان یعنی نیشنل اسمبلی میں پیر کے روز پاس ہوا تھا۔ بڑے ایوان سینیٹ میں گرما گرم بحث کے بعد اس کو بدھ کو پاس کیا گیا۔ حکمراں پیپلز پارٹی کے ممبران کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ ایک سیاسی حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہا ہے اور ان کی سرکار گرانے پر آمادہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کی لعنت سے لڑ رہا ہے دیش میں اس وقت بجلی کا بحران اور اقتصادی بحران جاری ہے اور دیش کی سیاست عدم استحکام کو ایک لمبے عرصے سے برداشت کررہی ہے۔ پاکستان کی سویلین حکومت اور پاکستان فوج میں جب سے پرویز مشرف کو 2008 میں ہٹایا گیا تھا زبردست اقتدار کے لئے جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ نئے قانون کو یقینی طور سے قانونی چنوتی ملے گی۔ سارا تازہ 2007 سے شروع ہوا اور اس وقت صدر مشرف نے نیشنل ری کنسیلی ایشن آرڈیننس کے ذریعے قریب 8 ہزار لوگوں پر چل رہے کرپشن کے معاملے ختم کردئے تھے۔ اس کا فائدہ صدر زرداری اور رحمان ملک کو بھی ملا تھا۔ دسمبر2009ءمیں سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے صدر سمیت سبھی لوگوں کے خلاف معاملے پھر سے کھولنے کے احکامات دئے تھے۔ سال 2008 میں سوئس انتظامیہ نے پاکستان حکومت کی اپیل پر زرداری کے خلاف چھ کروڑ ڈالر کے غبن کے معاملے کو بند کردیا تھا اس جھگڑے میں پاکستانی عوام بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور کچھ حد تک بٹ بھی گئی ہے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ ضرورت سے زیادہ بدلے کے جذبے سے کام کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کا کہنا ہے کہ وہ دیش میں کرپشن کو ختم کرکے ہی دم لیںگے۔ جہاں تک صدر زرداری کا سوال ہے عوام میں بہت ہی غیر مقبول ہیں اور ان سے نجات چاہتے ہیں۔ لیکن عوام دیش سے جمہوریت کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتی۔ انہیں ڈر ہے کہ سرکار اور سپریم کورٹ کی اس لڑائی کا فائدہ کئی پاکستانی فوج پھر سے نہ اٹھا لے اور اقتدار پر قابض ہوجائے۔ ایک راستہ ہے اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات ۔یہ زرداری کروانے کوتیار نہیں وہ زیادہ سے زیادہ دن اقتدار سے چپکے رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کھیل کتنے دن اور چلے گا یہ دیکھنا باقی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟