لشکرسب سے خطرناک انتہا پسندتنظیم اور پاکستان سب سے خطرناک ملک
انتہا پسند حافظ سعید اور حال میں گرفتار ہوئے ابو جندال کے مطابق بھی 26/11 ممبئی حملوں کے پیچھے لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی کا براہ راست ہاتھ تھا۔ ممبئی کے 2008ء آتنکی حملے کے دوران کراچی میں کنٹرول روم میں آئی ایس آئی کا افسر میجر سمیر علی کا موجود ہونا اس کو ثابت کرنے کیلئے کافی ثبوت ہے کہ لشکر اور آئی ایس آئی مل کر ہندوستان و دنیا کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ کہنا اس لئے بھی غلط نہ ہوگا کہ آج کی تاریخ میں لشکر طیبہ القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک انتہا پسند تنظیم بن چکی ہے اور پاکستان دنیا کا اس نقطہ نظر سے سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔ حال ہی میں ایک سابق آئی ایس آئی افسر کا بھی خیال ہے کہ لشکر طیبہ اب دنیا کی سب سے خطرناک انتہا پسند تنظیم ہے۔ سابق آئی ایس آئی تجزیہ نگار بروس ریڈل جو آج کل جانس ہاکن اسکول میں ایک پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ لشکر پاکستان کے اندر آزادانہ طور پر کام کررہی ہے اور پاکستانی مسلح فورسز اور دیش کے خفیہ اداروں کے ساتھ مضبوط کنکشن ہیں۔فی الحال چونکہ ریڈل ایک پرائیویٹ ادارے کے ساتھ کام کررہے ہیں اس لئے ان کی رائے کو امریکی حکومت کے افسر کی رائے تو نہیں مانی جاسکتی لیکن حکومتوں کی رائے اپنے دیش کے حکمت عملی سازوں کے بدلے نظریئے سے ہی اپنی پالیسی کو بدلتی ہے۔ کچھ وقت پہلے لشکر کو اتنی گہرائی سے نہیں لیا جاتا تھا سمجھا جاتا تھا کہ وہ پاکستانی پنجاب کے جنوبی حصے میں سرگرم ایک بڑ بولی انتہا پسند تنظیم ہے جو کبھی لال قلعہ پر تو کبھی وائٹ ہاؤس پر جہادی جھنڈا لہرادینا چاہتی ہے۔ امریکی حکومت کا خیال تھا کہ اس قسم کی درجنوں آتنکی تنظیموں میں سے ایک لشکر بھی ہے۔ امریکہ اس لئے بھی زیادہ فکر مند نہیں تھا کیونکہ وہ مانتا تھا کہ یہ امریکہ پرحملہ نہیں کرسکتا لیکن 26/11 نے امریکہ کی رائے میں بھی تبدیلی لادی ہے۔ بروس ریڈل کا خیال ہے کہ لشکرطیبہ کا درجہ فی الحال دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں میں سب سے اونچا ہے کیونکہ ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت پاکستان سرکار بھی نہیں دکھا پاتی اور اس تنظیم کو پاکستانی فوج و اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کسی نہ کسی سطح پر حمایت بھی حاصل ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق لشکر کے بانی حافظ سعید پاکستانی فوج کے کور کمانڈروں کی میٹنگوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے ہیں۔ دنیا میں اور کوئی ایسی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں جس کے لوگ کسی دیش کی راجدھانی میں ہتھیار لے کر ریلیاں نکالتے ہیں اور کسی دیگر دیش پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں اپنے لوگوں کا نام اجاگر ہونے کے بعد بھی ان کی سرگرمیوں پر کوئی روک نہیں لگاتا نہ ہی اسے اس سے کوئی فرق پڑتاہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے ریڈل نے 26/11 سے جوڑ کر تین بڑی گرفتاریوں عامر اجمل قصاب، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور ابو جندال کے بیانات کو بنیاد بنا یا ہے۔ ان تینوں کے بیانات میں ایک بات مشترک ہے کہ حملے کا خاکہ تیار کرنے میں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کے کچھ افسر بھی شامل تھے۔ پاکستان آج بھی اس حملے کو نان اسٹیٹ ایکٹس کی کارروائی بتاتا ہے۔ الٹا پاکستان کے ایک وزیر نے تو کچھ دن پہلے یہاں تک کہہ دیا کہ 26/11 حملے میں بھارت کے اندر موجود لوگوں کا ہی اہم کردار تھا۔ پاکستان بیشک کتنا بھی انکارکرتا رہے لیکن ایک کے بعد ایک گرفتاری اس کے ملوث ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ پاکستان بری طرح بے نقاب ہوتا جارہا ہے۔ بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ سعودی عرب حکومت نے ابوجندال کی گرفتاری میں جیسی سرگرمی دکھائی اگر ایسی سرگرمی دیگر خلیجی ملکوں کی حکومتیں لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو ملنے والے اقتصادی مدد اور سرپرستی دینے میں دکھائیں تو دیر سویر ان کی کمر بھی اسی طرح توڑی جاسکے گی جس طرح القاعدہ کی توڑی جارہی ہے۔ اصل مشکل تو یہ بھی ہے کہ خود امریکہ کے ذریعے پاکستان سرکار کو دی جانے والی مدد بھی تمام ذرائع سے پیسہ لشکر جیسے تنظیموں تک پہنچتا رہتا ہے اور جب تک امریکہ ان کو اپنے لئے خطرناک اور درد سر نہیں مانے گا تب تک ان کے علاج میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں بنے گی۔ آج لشکر طیبہ ، القاعدہ سے خطرناک دہشت گرد تنظیم اور پاکستان دنیا میں سب سے خطرناک دیش بن گیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں