رحم میں لڑکیوں کا قتل روکنے کیلئے کھاپ مہا پنچایت کا سراہنئے فیصلہ

باغپت ضلع کی ایک کھاپ مہا پنچایت کی جانب سے عورتوں پر تازہ پابندی کے الزامات کے عجیب و غریب فرمان سے تو ہنگامہ ہونا ہی تھا۔ پنچایت نہ طالبانی انداز میں جاری کردہ فرمان میں 40 سال سے کم عمر کی عورت کو اکیلے گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی ہے۔ عورتیں اکیلے بازار نہ جائیں۔ گاؤں کی عورتوں کا سر ہمیشہ دھکا ہونا چاہئے۔ عورتیں گھر سے باہر موبائل فون کر استعمال نہ کریں۔ پنچایت کے اس فیصلے سے ملک میں طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ پہلے بھی کھاپ پنچایتوں کے فیصلے پر واویلا مچا تھا۔ چاہے معاملہ عزت کے نام پر ہلاکتوں کا رہا ہو یا کورٹ میرج یا عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف فتوی جاری کرنا رہا ہو، جب پنچایتوں نے دیکھا کہ ہنگامہ زیادہ ہوگیا تو انہوں نے ایک اور فرمان جاری کردیا۔ اس مرتبہ سوا سو کھاپ مہا پنچایت رحم میں لڑکیوں کے قتل کے خلاف سخت احتجاج کے لئے کھڑی ہوگئی ہیں۔ ہریانہ کے جند کے بی بی پور گاؤں میں منعقدہ مہا پنچایت میں دہلی، راجستھان، اترپردیش کی سوا سو سے زیادہ کھاپ پنچایتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ہریانہ اور راجستھان کے کچھ علاقے رحم میں لڑکیوں کے قتل کے لئے بدنام ہورہے ہیں۔ یہ ہرروز پہلے اترپردیش کے باغپت ضلع میں ہوئی پنچایت نے جہاں عورتوں کے مفادات پر حملہ کرنے والے ریزولوشن پاس کئے تھے وہیں سنیچر کو اعلان کیا کہ رحم میں لڑکیوں کے قتل کو اپنی سطح پر روکنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی پنچایت نے مطالبہ کیا کہ سرکار رحم میں قتل کرنے والے قصورواروں کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کرنے کی سہولت پیدا کرے۔ ہمیں لگتا ہے کہ عورتوں پر پابندی لگانے والے فیصلے پر جب پنچایتوں نے ردعمل دیکھا تو اپنی بگڑتی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے بلاتاخیر رحم میں لڑکیوں کے قتل کوروکنے سے متعلق ریزولوشن لایا گیا۔ کھاپ کو سمجھنا ہوگا کہ عورتوں سے متعلق ان کا پہلا فرمان وقت اور سماج کی ہماری روایت کو کمزور کرنے کے ساتھ ہی دیش کی ساکھ پر بھی بٹا لگاتے ہیں۔ سماجی اصلاحات کی ایسی کوئی پہل کامیاب نہیں ہوسکتی جو عورتوں پر پابندی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ کھاپ پنچایت کے فیصلے سامنتی نظریئے کی عکاس ہیں۔ ایسے فیصلے پرعمل کرنے پر کوئی سماج یا گروپ آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ صرف قانون کے زور پر سماج کے اندر منفی نظریئے کو نہیں بدلا جاسکتا اس معاملے میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ سماج اور سیاسی عوامی نمائندے لوگوں کو نصیحت دیں اور انہیں سمجھانے بجھانے کے لئے آگے آئیں کہ وہ اس قدم کے بہانے کھاپ پنچایت کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہ دکھانے والے خود بے سمت ہوتے جارہے ہیں۔ ہم کھاپ پنچایت کے تازہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رحم میں بچیوں کے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن صرف قانون سے ہی لوگوں کا نظریہ نہیں بدلا جاسکتا۔ پنچایتوں کے ذریعے اس کے خلاف آواز اٹھانے سے ماحول اور نظریہ دونوں میں فرق پڑتا ہے۔ جہاں تک عورتوں کے سر ڈھکنے کی بات ہے تو اسلام میں بھی پردہ سسٹم ہے۔ گاؤں میں گھونگھٹ کا رواج ہے یہ نئی بات نہیں، ہاں طریقہ یہ نہیں چل سکتا کہ بچیوں کے بڑھتے قتل کے معاملوں کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹر اس جرائم کو قتل کے زمرے میں لانا چاہتا ہے اس کے لئے اس نے پچھلے ہفتے مرکزی حکومت سے رائے مانگی ہے۔ اگر مرکزی حکومت رضامند ہوتی ہے تو غیر قانونی اسقاط حمل کرانے والے ڈاکٹر اور اس میں لگے لوگوں پر (رشتے دار یا کنبے والے) کو قتل کا قصوروار مانا جائے گا۔ اترپردیش قانون بنانے کو تیار ہے۔ ریاست کی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر مذہبی تنظیمیں ارر مذہبی پیشوا آگے آئیں تو بچیوں کے رحم میں قتل کو روکونے کے لئے قانون بنانے کو تیار ہے۔ تین ماہ پہلے اسمبلی چناؤکے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زیر پارلیمانی امور اعظم خاں نے کہا تھا کہ موجودہ قانون سخت نہیں ہے اور اس گھناؤنے جرائم کو قتل کے زمرے میں لایا جانا چاہئے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟