کیا لندن اولمپک میں ہم بیجنگ سے آگے بڑھ سکیں گے؟

اس دیش کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ کھیلوں میں سیاست اتنی بڑھ گئی ہے کہ فضول کے جھگڑوں میں الجھنے کی کب فرصت ہے لیکن اصلی اشوز پر کوئی توجہ نہیں دیتا؟ سریش کلماڑی لندن اولمپک جائیں گے یا نہیں ،ثانیہ مرزا کی ماں کیوں لندن جا رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وقت بربادی کے اشوز پر دن رات بحث ہورہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ لندن اولمپک میں بھارت کتنے میڈل جیت کر لائے گا؟ لندن اولمپکس میں ہندوستانی کھلاڑیوں کے لئے سب سے بڑی چنوتی کیا ہے؟ یہ سوال کھلاڑیوں ،کوچ اور افسران سے پوچھا جائے تو زیادہ تر کا جواب ہوگا کھلاڑیوں کی فارم، قسمت اور باقی ٹیموں کا دم خم۔ لیکن دیش کا ایک بڑا طبقہ کچھ اور ہی سوچ رہا ہے۔ ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے سب سے بڑی چنوتی ہوگی بیجنگ 2008 اولمپکس میں جیتے تین میڈل کی برابری لندن اولمپکس میں کرنا۔ کھیل واقف کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس اس برس سنہرہ موقعہ ہے کہ وہ تین میڈلوں سے آگے بڑھے۔ یہ بھارت کے لئے حوصلہ بڑھانے والی بات ہوسکتی ہے۔ اولمپک برطانیہ کی راجدھانی لندن میں ہورہے ہیں اور برطانیہ کی مشہور ریٹنگ ایجنسی پرائس پاور ہاؤس کوپرس نے اپنے تجزیئے میں پیشگوئی کی ہے کہ بھارت لندن میں 6 میڈل جیت سکتا ہے۔ بھارتیہ کھلاڑی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان سے اس بار کتنی امید لگائی گئی ہے۔ لندن اولمپکس بھارتیہ کھیلوں کی سمت اور راہ عمل بن سکتے ہیں۔ بیجنگ سے اچھا مظاہرہ ہندوستانی کھیلوں کو میلوں آگے لے جا سکتا ہے لیکن بیجنگ سے کمزور مظاہرہ بھارتیہ کھیلوں کو میلوں پیچھے بھی دھکیل سکتا ہے۔ نشانے بازی، مکے بازی، کشتی، تیر اندازی، بیٹ منٹن اور ٹینس جیسے کھیل ہیں جو اولمپکس سے بھارت کو میڈل دلا سکتے ہیں۔ بیجنگ میں جیتے ایک طلائی اور دو تانبے کے میڈل بھارتیہ کھیلوں کی ترقی اور تبدیلی کی تصویر کو لندن میں پیش کریں گے۔ اگر لندن میں بھارت 4 میڈل بھی جیت پایا تو یہ مان لینا چاہئے بھارتیہ کھیل آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ بڑی کامیابی ملتی ہے تو صاف ہوجائے گا کہ بھارتیہ کھلاڑیوں نے میڈل جیتنے اور بڑے مقابلوں میں کامیاب ہونے کا منتر سیکھ لیا ہے۔ حالانکہ مکے بازی، کشتی ، نشانے بازی، تیر اندازی، ٹینس، بیٹ منٹن وغیرہ کھیلوں میں بھارت کے پاس ورلڈ چمپئن کھلاڑی ہیں لیکن اولمپکس کے سامنے کسی بھی مقابلے کے معنی نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بیجنگ میں جیتے میڈل بھارتیہ کھلاڑیوں کیلئے سخت چنوتی بن کر کھڑے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہم بھارت کے شاندار پردرشن کے نام پر تین چار میڈلوں کی بات کرتے ہیں جبکہ ہمارا پڑوسی دیش چین 1983 کے لاس اینجلس کے تین میڈلوں سے2008 میں بیجنگ اولمپک میں 57 طلائی اور100 سے زیادہ دیگر میڈل جیت کر میڈل ٹیلی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر نمبر ون پر آگیا تھا۔ بھارت 112 برسوں کی اپنے اولمپک تاریخ میں کل 20 ہی میڈل جیت پایا ہے جن میں11 میڈل تو ہاکی کے نام ہیں۔ کھیلوں میں یہ اصول اب کہیں پیچھے چھوٹ چکا ہے کہ میڈل جیتنے سے زیادہ اہم حصہ لینا ہے۔ کھلاڑی بھی جانتے ہیں کہ اولمپک میں کامیابی انہیں راتوں رات اسٹار بنا دے گی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!