اوبامہ کا تبصرہ اتنا برا کیوں لگ رہا ہے؟

justify;">امریکہ کے صدر براک اوبامہ کے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو لیکر کئے گئے تبصرے کا حکومت ہند نے برا مانا ہے۔ اوبامہ نے دیکھا جائے تو کوئی نہیں بات نہیں کہی۔ یہ ہی بات ہندوستان کی کارپوریٹ لابی بہت دنوں سے کہتی آرہی ہے۔ اوبامہ نے ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری خاص طور پر خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی پر لگی پابندی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ تقریباً یہی بات گذشتہ دنوں امریکی میگزین ٹائمس نے بھی کہی تھی۔ منموہن سرکار کو اوبامہ کا تبصرہ ناگوار گذرا ہے۔حیرانگی اس بات کو لیکر ہے کہ اسی امریکی لابی کی پالیسیوں پر یہ حکومت آج تک گامزن ہے آج انہیں برا کیوں لگ رہا ہے؟ منموہن سنگھ ، مونٹیک سنگھ آہلووالیہ خود امریکہ کے حمایتی ہیں۔ آج اوبامہ کی بات انہیں کیوں چبھ رہی ہے؟ کیا منموہن سنگھ اس بات سے انکارکرسکتے ہیں کہ بھارت کی ترقی (معاشیات) تقریباً ٹھپ پڑی ہوئی ہے؟ کیا وہ اس بات سے انکارکرسکتے ہیں کہ اقتصادی اصلاحات کی رفتار رک سی گئی ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اوبامہ نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکی کارپوریٹ لابی کے دباؤ میں کہا ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے امریکہ کی نگاہ بھارت کے خوردہ کاروبار پر ہے۔ کچھ ماہ پہلے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن آئیں تھیں ان کے اس دورہ کا مقصد ہی خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا۔ اسی لئے اپنے سرکای دورہ میں وہ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ، کانگریس چیف، مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی سے بھی ملاقات کرگئیں۔ موجودہ حکومت نے خوردہ تجارت سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو کھلی چھوٹ دینے کیلئے بل بھی لائیں تھیں۔ منموہن سرکار نے ایف ڈی آئی لانے کیلئے بل پر پورے دیش میں واویلا کھڑا ہونے کی وجہ سے اسے آگے نہیں بڑھاسکی۔ چھوٹے سے لیکر بڑے تاجر اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور دیگر انجمنوں کے نمائندے اسے کالے قانون سے تشبیح دیتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ مہینوں انشن ،دھرنوں اور جیل بھرو تحریک چلی۔ مرکز کو ان تحریکوں و سیاسی پارٹیوں کے دباؤ میں بل کو واپس لینا پڑا تھا۔ دراصل ہندوستان میں خوردہ بازار میں انگنت امکانات امریکہ کو دکھائی پڑ رہے ہیں۔ مندی کی مار سے نکلنے کی کوشش کررہے امریکہ کو اپنے یہاں کی مقامی کمپنیوں کو کھپانے کیلئے بازار کی تلاش ہے۔ بھارت اس کے لئے انہیں بہت موزوں دکھائی پڑ رہا ہے۔ وہاں کے تمام صنعتی دھندے اور روزگار اسی پر ٹکے ہوئے ہیں۔ امریکہ کو بھارت سے زیادہ اپنی فکر ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا ہے جب یہ وقت آئی کہ امریکن کمپنیوں نے بھارت میں پاور ویکیوم کی شکایت کرتے ہوئے اوبامہ کے دفتر کو ایک میمورنڈم دیا ہے۔ اب جبکہ وہاں اوبامہ صدر کے طور پر ایک اور پاری کھیلنے کے لئے چناؤ میدان میں ہیں تو انہیں وہاں ساری باتیں کہنی پڑرہی ہیں جس سے دیش کے اندر ان کی مخالفت کم ہوجائے۔ بھارت کو اوبامہ کی ساری باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ چناوی سال میں وہ بہت سی باتیں اپنے دیش کے ووٹروں کو رجھانے کے لئے کہیں گے۔ آج کی تاریخ میں جب یوروزون سے لیکر ڈالر اکنامی تک کے آگے گراوٹ کا سنگین خطرہ منڈرا رہا ہو تو کھلے پن کی پیروکاری کرنے والی بڑی معیشتیں بھی اپنی تحفظاتی پالیسیاں اپنانے کو مجبور کوچکی ہیں اور اپنی گلوبل اکنامک پوزیشنگ اس طرح کررہی ہیں کے جن میں ان کے لئے آسانی زیادہ ہے۔ یہ ہی حکمت عملی امریکہ کی بھی ہے کہ وہ اپنی کمپنیوں کیلئے ہندوستان میں دروازے کھولنے کیلئے دباؤ بڑھائے۔ امریکہ کو اپنی فکر ہے لیکن اس سے ہندوستانی کاروباریوں ، صنعتکاروں اور دستکاروں اور مزدوروں کو خطرہ بڑھ جائے گا۔ منموہن سنگھ سرکار کیلئے بھارت کی رکی ہوئی معیشت میں دوبارہ روح پھونکنا ایک چنوتی ہے لیکن یہ بات ہمیں امریکہ سے نہیں جاننی چاہئے۔ منموہن سنگھ میں دراصل قوت ارادی کی کمی ہے۔ کبھی اتحادی دھرم کی وجہ سے ، کبھی غلط اسکیموں کی وجہ سے یہ سرکار صحیح فیصلے نہیں کرپا رہی ہے۔ اب اس سرکار کی یہ مشکل ہے کہ اوبامہ کے تبصروں کے بعد کچھ ٹھوس قدم اٹھاتی ہے تو یہ دھبہ لگے گا کہ یہ سب امریکہ کے دباؤ میں ہوا ہے۔ اس لئے بھارت سرکار کو بغیر دباؤ میں آئے اپنا راستہ خود طے کرنا چاہئے۔

تبصرے