پرنب مکھرجی کے بغیر کانگریس اور منموہن سرکار

مسٹر پرنب مکھرجی نے تقریباً چار دہائیوں کے بعد سرگرم سیاست سے منگل کے روز ٹاٹا کردیا۔ انہوں نے وزیر مالیات کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ وزارت میں ان کا آخری دن تھا جب پرنب دا اپنی لمبی سیاسی زندگی سے رخصت ہوکر راشٹرپتی بھون میں نئی پاری کی شروعات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کا افسوس ضرور ہوگا کہ وہ دیش کی معیشت کو ایسے حال پر چھوڑ رہے ہیں جب سامنے تاریک سرنگ نظر آرہی ہے۔ کچھ گھنٹوں پہلے ہی انہوں نے ریزرو بینک کی جانب سے بڑی رعایتوں کا اعلان بارے بتایا تھا مگر ریزرو بینک نے جو اقدامات سامنے رکھے ہیں وہ نہ تو عام جنتا میں اور نہ ہی ہماری معیشت میں کوئی نیا جوش یا سمت دے سکے؟ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو یوپی اے II- سرکار کے آغاز سے ہی مسلسل اقتصادی سیکٹر میں بھارت پچھڑتا ہی چلا گیا۔ بازار اور اقتصادی تجزیہ نگار اور اقتصادی مشیر سبھی لٹکے پڑے پالیسی ساز فیصلوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور یہ سب تب تک ہوتا رہا جب وزارت مالیات کی کمان پرنب مکھرجی جیسے بڑے اور ماہر اقتصادیات کے ہاتھ میں رہی ہو۔ اب تو ان کی اہلیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ سوال تو یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ یوپی اے II میں بحران پیدا کرنے میں کردار نبھانے والے پرنب مکھرجی سرگرم سیاست سے ہٹنے کے بعد منموہن سرکار کون چلائے گا؟ یہ سوال کانگریس میں اٹھایا جارہا ہے کہ پرنب دا کا متبادل کون ہوگا؟ یوپی اے سرکار میں مختلف وزارتوں کے کام کاج سے وابستہ27 وزرا کے گروپ (جی او ایم) ہے، ان میں 13 جی او ایم کی سربراہی دادا کرتے آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اعلی اختیار یافتہ وزرا کے گروپ ہیں۔ جی اوایم اور ای جی او ایم کی ذمہ داریاں متعلقہ محکموں کے کابینہ وزرا کو سونپنے پر غور چل رہا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم وزیر خزانہ کس کو بناتے ہیں۔ اس کو لیکر دو تین ناموں کا تذکرہ جاری ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم، وزیر اعظم اور سونیا گاندھی دونوں کے بھروسے مند ہیں لیکن وہ ٹوجی گھوٹالے اور ان کے چناوی جھگڑے کو لیکر پہلے ہی سے تنازعوں میں ہیں ان کے چلتے شاید ہی انہیں یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ مونٹیک سنگھ اہلوالیہ اور سی رنگاراجن کے ناموں پر بھی غور وخوض جاری ہے۔ دونوں وزیر اعظم کے چہیتے ہیں لیکن کسی غیر سیاسی شخصیت کو یہ عہدہ سونپنا شاید خود کانگریسیوں کو قبول نہ ہو۔ ایسے میں وزیر تجارت آنند شرما کی لاٹری لگ سکتی ہے کیونکہ انہیں 10 جن پتھ اور 7 ریس کورس دونوں کا ہی آشیرواد حاصل ہے۔ سرکار اور پارٹی کو سب سے زیادہ مشکل اپوزیشن سے تال میل بٹھانے میں آسکتی ہے۔ اکثر پرنب مکھرجی ہی یہ کردار نبھاتے تھے کہ اپوزیشن بھی ان کی عزت و احترام کرتی تھی جو کام پرنب کروالیتے تھے وہ کوئی اور موجودہ کانگریسی شاید ہی کروا پائے اس میں شبہ ہے۔ پرنب کا پارٹی اور سرکار سے ہٹنا کانگریس کے لئے ایک نئی چنوتی ہے ۔ لوک سبھا چناؤ میں زیادہ وقت نہیں بچا ہے ۔بچی ہوئی میعاد ٹھیک ٹھاک گذر جائے یہ ایک چنوتی ہوگی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!