ممتا کے پہلے کیبنٹ فیصلے کو عدالتی جھٹکا

جمعہ کو مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب کولکاتہ ہائی کورٹ نے ان کی حکومت کے ذریعے بنائے گئے سنگورلینڈ ری ہیبلٹیشن و ڈولپمنٹ ایسیٹ 2011 کو غیر آئینی اور ناجائز ٹھہرادیا۔ قابل غور ہے کہ مغربی بنگال میں سرکار قائم کرنے کے بعد ممتا بنرجی کی کیبنٹ کا پہلا فیصلہ تھا۔ سنگور کی زمین کسانوں کو لوٹانے تھیں۔ وہاں کی 997.3 ایکڑ زمین میں سے تقریباً 400 ایکڑ زمین کو غیر خواہشمند کسانوں کو مناتے ہوئے انہیں لوٹانے کی کوشش شروع کردی گئی۔ اسمبلی سے ایکٹ پاس کر نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ جب انتظامیہ نے زمین لوٹانے کی کارروائی شروع کی تو ٹاٹا گروپ عدالت چلا گیا۔ دراصل سنگور کی زمین کا اشو ممتا بنرجی کے لئے سیاسی طور سے ایک ناسور بن گیا تھا۔ سنگور کی زمین لوٹانے کے سوال پر ان کی تحریک سے بنگال میں زمین ایکوائر کا اشو کھڑا ہوا۔ اور سنگور اور اس کے بعد نندی گرام کی تحریکوں کے ذریعے ممتا بنرجی وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچ گئیں۔ چناؤ جیت جانے کے بعد ممتا بنرجی کیلئے سنگور میں بس اتنا ہی کام باقی رہ گیا تھا کہ وہ کسانوں کو ان سے لی گئی زمینیں واپس دلوائیں اور باقی سب بھول جائیں۔ انہوں نے یہ کیا بھی کہ کسانوں کو ان کی زمین واپس مل سکے اس کے لئے سنگور اراضی اصلاحات ایکٹ تیار تو کیا لیکن نہ جانے کس جذبے سے اس ایکٹ پر صدر کی رضامندی حاصل کرنا کسی کو کیوں یاد نہیں رہا۔ اس قانون کو اب کولکتہ ہائی کورٹ نے نہ صرف منسوخ کردیا بلکہ اسے غیر آئینی بھی قراردیا ہے۔ جمعرات کو جسٹس پناکی چندر گھوش اور جسٹس مرنال کانتی چودھری کی ڈویژن بنچ نے دو باتوں پر زور دیا۔ ایک تو یہ کہ بنگال سرکار کے سنگور ایکٹ میں معاوضے کی نکات زمین اراضی تحویل ایکٹ 1894ء سے میل نہیں کھاتیں۔ دوسری طرف ایکٹ راشٹرپتی کی منظوری کے بغیر لاگو کردیا گیا۔ عدالت کے اس فیصلے پر بنگال سرکار کی جانب سے سرکاری رائے زنی ریاست کے وزیر صنعت پارتھ چٹرجی نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کسانوں اور دیگر لوگوں کے مفادات کے تئیں عہد بند ہیں۔ ہم ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔ کسانوں کو فکر نہیں کرنی چاہئے۔ خود وزیر اعلی ممتا بنرجی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں لکھا ہے ’’میں اقتدار میں رہوں یا نہ رہوں، کسانوں کا ساتھ دیتی رہوں گی۔ ‘‘ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے فیصلہ دینے کے ساتھ ہی اپنے حکم کی تعمیل دو مہینے کیلئے ملتوی کردی ہے۔ اس میعاد میں مغربی بنگال سرکار سپریم کورٹ میں اعتراض داخل کرسکتی ہے لیکن انترم مدت کے دوران سرکار کسانوں کو زمین تقسیم نہیں کرسکے گی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی سیاست میں سنگور مسئلے کی اہمیت اتنی ہی نہیں ہے کہ اس نے مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ کو اکھاڑ پھینکا ہے اور ممتا کو اقتدار میں پہنچادیا ہے۔ سنگور کے بعد ہی یہ سوال اٹھا کہ پرائیویٹ کمپنیوں کے لئے زمین تحویل میں سرکار صنعتکاروں کے دلالوں کی طرح کیوں کردار نبھائے؟ ساتھ ہی یہ بھی کہ ہر زمین ایکوائر کے بعد کسان ہی خسارے میں کیوں ہیں؟ اس دباؤ میں مرکزی سرکار کو جس قانون کا مسودہ تیار کرنا پڑا جس میں ایکوائر کے ساتھ ساتھ لوگوں کی باز آبادکاری پر بھی دھیان رکھا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟