ہمدردی پانے کیلئے ویر بھدر نے استعفیٰ دیا

24 سال پرانے کرپشن کے معاملے میں عدالت میں اپنے خلاف الزامات طے ہونے کے بعد شری ویر بھدر سنگھ نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور یہ استعفیٰ منظور بھی ہوگیا۔ جب راجہ صاحب پر الزام لگے تھے تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر الزام ثابت ہوتے ہیں تو انہیں کرسی چھوڑنے میں ذرا بھی ہچک نہیں ہوگی۔یوپی اے سرکار میں کرپشن کے الزام میں استعفیٰ دینے والے یہ تیسرے وزیر ہیں۔ ان سے پہلے اے ۔راجہ اور دیا ندھی مارن کرپشن کے الزامات کے چلتے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ پانچ بار ہماچل کے وزیر اعلی رہے 78 سالہ وزیر بھدر سنگھ کو استعفیٰ اس لئے دینا پڑا کیونکہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے خلاف ہماچل پردیش کی ایک عدالت نے کئی سال پرانے کرپشن کے ایک معاملے میں کرپشن اور مجرمانہ برتاؤ کا الزام طے کیا تھا حالانکہ کانگریس کا یہ ہی موقف تھا کہ عدالت نے ابھی ان پر الزام طے کئے ہیں کوئی سزا نہیں سنائی لیکن ویر بھدر سنگھ نے اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو تنقید سے بچانے کیلئے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ویسے اس کے پیچھے ہماچل پردیش کی سیاست بھی کام کررہی ہے۔ استعفیٰ دینے کے پیچھے ایک مقصدعہدے کا لالچ نہ ہونے کا پیغام دینے سے زیادہ اسے اپنی پہاڑی ریاست میں ہمدردی میں بدلنے کی سیاست بھی ہے۔ ویر بھدر سنگھ پردیش کانگریس میں اپنے تمام حمایتیوں کو متحد رکھنے کے لئے یہ ہی سندیش دینا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ ابھی بھی پارٹی کے 23 میں سے21 ممبران اسمبلی جن میں ودیا اسٹوکس بھی شامل ہیں وہ شملہ میں اپنی 77 ویں سالگرہ اور سیاست میں 50 سال کے پروگرام میں آئیں تھیں،ان کے ساتھ ہیں۔ استعفیٰ دیکر ویر بھدر سنگھ نے آنے والے اسمبلی انتخابات میں فل ٹائم سیاست کرنے کا بھی راستہ کھول دیا ہے۔ویر بھدر سنگھ نے عدالت کی طرف سے معاملے درج ہونے کو اپنے خلاف پردیش کی بھاجپا سرکار کی سازش قرار دیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے جس آڈیو سی ڈی کی بنیاد پر ان کے خلاف معاملے طے کئے گئے ہیں اسے صحیح ثابت کرنے کے لئے ان کی آواز کا نمونہ تک نہیں لیا گیا ہے۔ دوسرے یہ معاملہ پہلے ہی سے ہائی کورٹ میں ہے اور ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ یہ تو کوئی نہیں مانے گا کہ انا ہزارے کی ٹولی کی سیاسی طاقت اتنی مضبوط ہے کہ وہ جب چاہیں کسی وزیر کی کرسی چھین سکتے ہیں باوجود اس کے اگر اس ٹولی کرپشن کے خلاف سرکار پر مسلسل حملہ آور کا رخ اپناتی ہے تو ان کا ایک اخلاقی اور سیاسی اثر تو ضرور جنتا اور سرکار کی سطح پر پیدا ہورہا ہے۔ بہرحال ویر بھدر سنگھ کے استعفیٰ سے یوپی اےII-سرکار کا یہ سنکٹ پھر سے سر پر آگیا ہے۔ وہ کرپشن میں مسلسل پھنستے جانے کے بجائے اس سے لڑتی ہوئی کیسے نظر آئے؟ جس دن ویر بھدر سنگھ نے دہلی میں اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا اسی دن سرکار کے ایک اور وزیر ولاس راؤ دیشمکھ ممبئی میں آدرش سوسائٹی معاملے میں جانچ کمیشن کے سامنے اپنا بیان دے رہے تھے۔ ہماچل پردیش میں یہ چناوی برس ہے۔ اب ویر بھدر سنگھ پر الزام لگنے سے اور ان کے استعفے سے آنند شرما اکیلے کانگریس کے نیتا بچتے ہیں جو اگلے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو ٹکر دے سکتے ہیں لیکن ان کی زمینی پکڑ اتنی نہیں ہے جتنا ویر بھدر سنگھ کی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟