مصر کے نئے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی چنوتیاں

مصر کے 30سال تک بلا روک ٹوک حکومت چلانے والے حسنی مبارک کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پہلی بار ہوئے صدارتی چناؤ میں ڈاکٹر محمد مرسی کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہیں 51.73 فیصدی ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے حریف و سابق وزیر اعظم احمد شفیق کو48.2 فیصد ووٹ ملے۔ جیسے ہی نتیجوں کا اعلان ہوا اسی وقت تحریر چوک میں آتش بازی کی جانے لگی۔ لوگ ڈھول بجا کر اپنی خوشیوں کا اظہار کرنے اترآئے لیکن مسلم برادر ہڈ کی جمہوری وفاداری کے بارے میں شبہ رکھنے والے بہت سے لوگ اس وقت صدمے میں تھے۔ مسلم برادر ہڈ تھوڑے سے فرق سے کامیاب ہوئی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مصر کی بڑی آبادی ان کے چناؤ سے خوش نہیں ہے کیونکہ پہلی بار جمہوری طریقے سے صدر کا چناؤ ہوا ہے۔ اس نکتہ نظر سے اسے تاریخی مانا جاسکتا ہے۔ لیکن اب مصر کی عوام کی پسند کے جمہوری اقتدار کا راستہ ہموار ہوچکا ہے۔ مصر میں حکمرانی کی تبدیلی نے جدید دور میں انقلاب کے امکان کے راستے کھول دئے ہیں۔ اس چناؤ سے مرسی نے اپنی مقبولیت اور مسلم برادر ہڈ نے مصر کی عوام پر اپنی پکڑ مضبوط ثابت کردی ہے۔ جس طرح حسنی مبارک کے خلاف پیدا وسیع عوامی مخالفت نے پوری عرب دنیا کے مزاج کو متاثر کیا اسی طرح اس چناؤ نتیجے کا دیش کے باہر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس سے پہلے ترکی میں اور پھر تیونس میں بھی اندر خانے اسلامی سیاسی طاقتیں مینڈیٹ پانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ لیبیا میں اگلے مہینے انتخابات ہونے ہیں کیا وہاں بھی یہ ہی رجحان سامنے آئے گا؟ جو بھی ہومرسی کے سامنے چنوتیوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کے لئے مصر کو پوری طرح سے ایک جمہوری ملک بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ فوج ہوسکتی ہے۔ فوج کی سپریم کونسل کے اب تک کے رویئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس جمہوری تبدیلی سے خوفزدہ ہے۔ صدر کا چناؤ ختم ہونے سے پہلے ہی وہاں کی آئینی یا بڑی عدالت نے پارلیمنٹ کو توڑدیا جس کا چناؤ پچھلے سال نومبر سے اس سال مارچ کے درمیان ہوا تھا۔ اس عدالت کے جج صاحبان کی تقرری حسنی مبارک کے عہد میں ہوئی تھی پارلیمنٹ کو توڑنے کے پیچھے عدالت کی دلیل تھی کہ اس کے ایک تہائی ممبر ناجائز طریقے سے چنے گئے لیکن اصلی وجہ شاید یہ تھی کہ اس پارلیمنٹ میں مسلم برادر ہڈ کی بالادستی تھی۔ پھر صدارتی چناؤ کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی فوجی کونسل نے صدر اور پارلیمنٹ کے کئی مخصوص اختیارات خود ہتیا لئے جن میں آئین میں تبدیلی کے کسی ریزولوشن کو ویٹو کرنا، نئے قانون تجویز کرنا، شہریوں کو نظربند کرنا، وہیں فوج بھی تعینات کرنا اور جنگ اور امن کا اعلان کرنے جیسے کئی اختیارات شامل ہیں۔ مرسی کے لئے فوج سے تال میل بنائے رکھنا بڑی چنوتی ہوگی اور فوج اتنی آسانی سے اپنی طاقت کم نہیں ہونے دے گی۔ مرسی اچھے ،پڑھے لکھے سیاستداں ہیں اور انہیں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ سبھی طبقوں کو ساتھ لیکر چلنے کا اعلان بھی کرنا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ان کی قیادت میں مصر میں جمہوری نظام بحال ہوگا اور دیش میں ترقی ، خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ دیش کو اسلامی کٹرپسندی کی طرف جانے سے روکنے کی چنوتی ان کے سامنے ہوگی۔ (انل نریندر)

تبصرے

  1. Mr. Anil did you read the sultan salahuddin ayubi in the history of Egypt......


    read it....

    i will wait for you reply....

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟