قدرتی آفت یا پھر سازش کی آگ؟

سرکاری عمارتوں میں آگ لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے ممبئی کے مہاراشٹر منترالیہ میں خوفناک آگ لگی تو ایتوار کو نئی دہلی کے انتہائی سکیورٹی زون والی وزارت داخلہ کے کمرے میں آگ لگنے کی اطلاع ملی۔ مہاراشٹر حکومت کے سچیوالیہ (منترالیہ) میں جمعرات کو زبردست آگ لگی جس سے اس چار منزلیں تباہ ہوگئیں۔ ان میں وزیر اعلی کے دفتر سمیت کافی کچھ جل کر خاک ہوگیا اور کم سے کم پانچ لوگوں کی موت ہوئی۔ ادھر نئی دہلی میں وزیر داخلہ پی چدمبرم کے دفتر کے پاس واقع نارتھ بلاک میں آگ لگی۔ اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ آگ میں کوئی سرکاری دستاویز نہیں جلا ہے۔ اس سے پہلے7 جون کو بھی نارتھ بلاک میں ہی واقع وزارت مالیات کے دفتر میں آگ لگی تھی جس میں دو کمروں میں رکھے دستاویز جل گئے تھے۔ آگ کمرہ نمبر102 کے پاس واقع بالکنی میں رکھے کچرے میں لگی تھی۔اتفاق سے اس دن چھٹی تھی پتہ نہیں کے آگ چھٹی کے دن ہی کیوں لگی؟ کیسے لگی؟ ممبئی میں منترالیہ میں جب آگ لگی تو اس میں نہ تو کوئی سکریٹری اور وزیر بلکہ وزیر اعلی تک منترالیہ میں ہی تھے جب منترالیہ میں آگ کی اطلاع ملی تو لوگوں کے دماغ میں پہلا سوال یہ آیا کیا یہ آگ کسی سازش کے تحت لگائی گئی؟ اس کا مقصد ان گھوٹالوں کی فائلوں کو تو جلانا نہیں تھا؟ اس میں سرخیوں میں چھائے آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی گھوٹالے کی اہم فائلیں بھی شامل تھیں۔ سی بی آئی نے فوراً بیان دے دیا کہ آدرش سوسائٹی کی فائلوں کی دوسری کاپی ان کے پاس موجود ہے اور محفوظ ہے لیکن اس نے واقعہ کو طول پکڑنے نہیں دیا۔ دکھاوے کے لئے برتی گئی مزید سرکاری چوکسی 24گھنٹے گذرتے گذرتے دم توڑ گئی اور کسی اور نے نہیں بلکہ نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے اس اندیشے کو ہوا دے دی کہ آگ لگنے کے پیچھے کوئی بڑی سازش ہوسکتی ہے۔ پوار نے کہا کہ وہ اس واقعے سے حیران ہیں۔ وزیر اعلی صاحب کے چیمبر میں ویسا ہی صوفہ سیٹ پڑا ہوا تھا جیسا کہ میرے چیمبر میں ہے۔ وزیر اعلی کے چمبر کی بغل میں دو چمبر پوری طرح خاک ہوگئے ہیں اور سامنے والے دونوں ہال جل گئے ہیں اور میرا تو پورا فلور ہی جل گیا ہے۔ سی ایم صاحب کا چیمبر چھوڑ کر سب کچھ جل گیا۔ ان کے ٹیبل پر رکھے لیٹر ہیڈ تک کو کچھ نہیں ہوا۔ صاف ہے کہ یہ چنگاری اس سازش کی طرف ہے جس میں مہاراشٹر سرکار کے اعلی سطح کے دستاویزات شامل ہوسکتے ہیں۔ ابھی مہاراشٹر میں کئی بڑے لیڈروں پر آدرش سوسائٹی گھوٹالہ، ناجائز زمین الاٹمنٹ اور اثاثے سے زیادہ املاک اکٹھی کرنے کے معاملوں کی جانچ جاری ہے۔ ریاست میں اتحادی سرکار کی رہنمائی کانگریس کررہی ہے اس لئے وہ اپوزیشن کے نشانے پر سب سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر یہ اشارے ملتے ہیں کہ آگ لگنے کے پیچھے کوئی بھی سازش ہوسکتی ہے تو اسے ماننے کے واجب اسباب سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آگ پھیلنے کے راستے بھی اسی طرف اشارے کررہے ہیں کہ اگر ایک منٹ کے لئے اس سازش کی بات کو چھوڑبھی دیں تو بھی اس واقعے نے سرکار کے محکمہ آگ انتظام اور سکیورٹی انتظام پر سوالیہ نشان کھڑے کردئے ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں وزیر اعلی، نائب وزیر اعلی اور وزراء کے چیمبروں کے رکھ رکھاؤ پر تقریباً75 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ باوجود اس کے مہاراشٹر کا انتہائی محفوظ مانے جانے والی عمارت نہایت غیر محفوظ ثابت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ قدرتی آفات مینجمنٹ کی خامیاں اجاگر ہوچکی ہیں اور ان کی قلعی تب کھلتی ہے جب کوئی واردات ہوجاتی ہے۔ مہاراشٹر منترالیہ میں لگی آگ میں جو بے قصور مارے گئے ہیں ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس واردات میں ایک فائر برگیڈ کے آدمی کی آخری رسوم میں کوئی سرکاری افسر نہیں پہنچ سکا ،یہ کتنے شرم کی بات ہے عمارت میں سرکاری کام چلانے والے بڑے بڑے سرکاری افسر بیٹھتے ہوں، وزیر بیٹھتے ہوں اور جس کی چھٹی منزل پر خود وزیر اعلی کا دفتر سجتا ہو اس عمارت میں ایسے وزیر بھی نہ ہوں جو آگ لگنے پر اپنے آپ پانی ڈال سکیں۔ سمجھا تو یہ ہی جاسکتا ہے کہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔ فائر الارم اور سرکٹ بریکر جیسی سہولت آج کل ہر عمارت میں ضروری ہے اتنی محفوظ عمارت میں یہ بنیادی سہولت بھی نہ ہو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ بات اس لئے اور بھی سنگین ہوجاتی ہے کہ اسی شہر میں کوئی ساڑھے تین سال پہلے دیش کا سب سے بڑا آتنک وادی حملہ ہوا تھا اور اس کے بعد شہر کو محفوظ رکھنے کیلئے تمام کمیٹیاں بنیں، میٹنگیں ہوئیں اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات رہا۔ قدرتی آفات مینجمنٹ کی یہ تکلیف دہ تصویر تب ہے جب تین سال پہلے اس بارے میں ہوئی فائر سیفٹی آڈٹ میں ان سارے نکات پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ آر ٹی آئی کے حوالے سے یہ رپورٹ باہر آنے کے بعد کے سابق وزیر اعلی اشوک چوہان کو اس بارے میں خط بھی لکھے گئے لیکن نہ تو انتظامیہ نے ہی اپنا رویہ بدلہ اور نہ ہی حکمراں طبقے نے کوئی پرواہ کی۔ جو وزیر اعلی اپنا گھر محفوظ نہیں رکھ سکتا وہ پورے صوبے کو کتنا محفوظ رکھ سکتا ہے سوال یہ بھی اٹھتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!