پاک صدر بنام عدالتیں لڑائی بڑھتی جارہی ہے

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی عدلیہ آصف زرداری اور ان کی حکومت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے استعفے کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ نے نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے بھی سوال جواب شروع کردئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے معاملے میں دیش کی سپریم کورٹ نے اشرف سے سیدھا سوال کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں جانکاری منگانے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھیں گے یا نہیں؟ وزیر اعظم اشرف کو جواب دینے کیلئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے سبب سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو توہین عدالت کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور بعد میں انہیں نا اہل قراردیا گیا اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس نصیرالحق کی سربراہی والی تین نفری ججوں کی بنچ نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ اسے امید ہے کہ نئے وزیر اعظم عدالت کے حکم کی تعمیل کریں گے۔اگلی سماعت12 جولائی کو مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان کے صدر کو براہ راست گھیرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ نے تو کھل کر کہا کہ صدر آصف علی زرداری کے پاس 5 ستمبر تک کا وقت ہے۔ اس دوران صدارتی محل میں سیاسی سرگرمیاں بند کردیں۔ لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی والی تین نفری بنچ نے صدر آصف علی زرداری سے حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے استعفیٰ دینے کو بھی کہا ہے۔ بنچ کے ذریعے حکم میں کہا گیا ہے صدر اگر ہائی کورٹ کے پچھلے سال کے دئے گئے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے تو عدالت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ پچھلے سال دئے گئے حکم میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ 5ستمبر تک صدارتی محل میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ترک کردیں۔ زرداری صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے پی پی کے شریک چیئرمین بنے ہوئے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے 12 مئی2011ء کو ایک حکم جاری کیا تھا کہ صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے الگ ہوجائیں۔ اس حکم کے سلسلے میں دائر عرضیوں کی سماعت ہائی کورٹ کررہا ہے۔ بنچ نے زرداری کے خلاف حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دینے کا معاملہ اٹھایا تھا۔ غور طلب ہے عدالت عالیہ نے 25 جون کو ہوئی پچھلے سماعت میں صدر کے پرنسپل سکریٹری کو طلب کیا تھا لیکن سکریٹری نہ تو عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی انہوں نے جواب داخل کیا۔ دوسری عرضی میں عرضی گذار محمد صدیقی نے عدالت سے کہا کہ زرداری نے خود کو سیاسی سرگرمیوں سے الگ نہیں کیا۔ پاکستان میں عدلیہ بنام زرداری حکومت کا معاملہ خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ عدالتیں زرداری کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام بھی لگتا ہے کہ اس لڑائی میں عدالتوں کے ساتھ ہیں۔ حال ہی میں ایک سروے میں یہ چونکانے والا نتیجہ سامنے آیا کے پاکستانی عوام زرداری کے سخت خلاف ہے اور وہ بھارت سے بھی زیادہ غیر مقبول ہے۔پاکستانی فوج بھی زرداری کو ہر حالت میں ہٹانے کے حق میں ہے ایسے میں جب تینوں فوج عدالتیں اور عوام سبھی آصف علی زرداری کے خلاف متحد ہیں تو زرداری کے اپنے عہدے پر بنا رہنا مشکل لگتا ہے لیکن یہ صحیح یا غلط آصف زرداری چنے ہوئے صدر ہیں اور ابھی ان کی میعاد میں تقریباً دو سال بچے ہیں ایسے میں ان کو عہدے سے ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔ زرداری پر اگر اور دباؤ بڑھتا ہے تو وہ اسمبلی (پارلیمنٹ) کا چناؤ وقت سے پہلے کرواسکتے ہیں۔ اگر وہ ان کی پارٹی چناؤ جیت جاتی ہے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اپنا بھروسہ ظاہر کردیا ہے اور جمہوریت میں عوام سب سے بالاتر ہوتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!