اناج سڑا تو جیل کی ہوا کھائیں گے افسر

جس دیش میں 20 کروڑ سے زائد لوگوں کو بھرپیٹ کھانا میسر نہیں ہوتا ،جہاں40 کروڑ سے زیادہ لوگ خط افلاس کی زندگی بسر کررہے ہوں وہاں لاکھوں ٹن اناج سڑجائے یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ میں اپنے بھارت مہان کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے دیش میں 10.5 فیصدی اناج کا صحیح ذخیرہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہوتا ہے۔ اس اشو کو لیکر عدالت نے بھی سرکاروں کی جم کر کھنچائی کی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ اترپردیش ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بدھ کو ایک اہم حکم سنا دیا۔ عدالت نے کہا اناج کے رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی برتنے والے افسروں و ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر تفتیش کی جاسکتی ہے کیونکہ سرکاری املاک یا اناج کو نقصان پہنچانا آئی پی سی کے تحت جرم ہے۔ ساتھ ہی یہ جنتا کے بھروسے کو بھی کھونا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ہدایت جاری کرکے کھلے میں اناج رکھنے پر فوری طور پر روک لگادی ہے۔ عدالت نے کہا اناج نقصان ہونے پر اس کی وصولی سے متعلق اسٹاف یا افسروں کی تنخواہ کاٹی جائے۔ جسٹس دیوی سنگھ پرساد و جسٹس ستیش چندرا کی رہنمائی والی بنچ نے یہ حکم ایک رضاکار تنظیم پیوپل تنظیم کی پی آئی ایل پر دیا ۔ عدالت میں سرکاری خرید کے اناج خاص طور پر گیہوں سڑنے کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے روکنے کی ہدایت جاری کرنے کے لئے اپیل کی گئی تھی۔ عدالت نے پی آئی ایل کوسماعت کے لئے منظور کرریاستی سرکار کو اناج کی حفاظت کے راستے و طریقے تلاشنے کے لئے ایک کمیٹی بنانے کی بھی ہدایت دی۔ یہ کمیٹی اناج کی خرید اور اسٹور کے لئے اسکیم بنائے گی۔عدالت نے کہا اناج کا اسٹور گودام کی صلاحیت کے حساب سے کیا جانا چاہئے۔ اگر بڑا گودام نہیں ہے تو نئے بنائے جائیں یا پھر سرکار انہیں کرائے پر لے سکتی ہے۔ عدالت نے اس کمیٹی سے مہینے بھر میں اپنی رپورٹ دینے کو کہا۔ اس کے بعد دو ماہ میں اناج کی خرید و بکری کے لئے ریاستی سرکار باقاعدہ حکم یا سرکولر جاری کرے۔ عدالت نے معاملے کے فریقین کو بھی جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے چھ ہفتے کی مہلت دی ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کے اناج اونچی جگہوں پر ترپال وغیرہ سے دھک کر رکھا جائے۔ ہم یوپی ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ آخر کا کسی نے تو اناج کی بربادی ہونے سے بچانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے کی ہدایت دی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اکھلیش سرکار اس حکم کی کتنی تعمیل کرتی ہے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی ہے تو صوبے کا بھلا کرے گی ساتھ ساتھ دیش کی کئی ریاستوں کو بھی راستہ دکھائے گی۔ صرف مرکزی سرکار پر یہ معاملہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ریاستی حکومتوں کا کردار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟